حرام ابدی

حرام اَبدی یا حرمت مُؤبد، مرد اور عورت کے درمیان ہمیشہ کے لئے ایک دوسرے سے شادی کے حرام ہونے کے معنی میں ہے۔ شیعہ فقہ میں مندرجہ ذیل وجوہات، مرد اور عورت کے درمیان ہمیشہ کے لئے شادی کے حرام ہونے کا سبب ہو جاتے ہیں: زنائے محصنہ، لِعان، عدت یا احرام کی حالت میں عقد کا صیغہ پڑھنا ، باپ، بیٹے یا سالے سے لواط کرنا اور بیوی کو نویں مرتبہ طلاق دینے کے بعد۔

حرام ابدی کی اصطلاح فقہی ابواب میں نکاح، طلاق، حج اور لعان کی بحثوں میں استعمال ہوئی ہے۔ « ایران کے مدنی قانون » کے ۱۰۵۰ سے ۱۰۵۹ تک کے تمام مادہ، حرمت ابدی سے مخصوص ہیں۔

حرام ابدی کا معنی و مفہوم

حرام ابدی، حرام موقت کے مقابلہ میں ہے اور مرد و عورت کے درمیان ہمیشہ کے لئے شادی کے حرام ہونے کے معنی میں ہے۔[1] اصطلاح حرام ابدی کے دو استعمال ہیں:

محارم (نَسبی، رِضاعی و سَببی) سے ہمیشہ کے لئے شادی کا حرام ہونا۔[2]

ان نامحرم افراد سے ہمیشہ کے لئے شادی کا حرام ہونا جن سے شادی کرنا یوں تو جائز ہے لیکن کچھ موانع کے سبب ان سے شادی کرنا حرام ہو جاتا ہے۔[3]

یہ اصطلاح ابواب فقہیِ میں سے باب نکاح، طلاق، حج و لعان میں استعمال ہوئی ہے۔[4]

اسباب

فقہ اسلامی میں چند اسباب ذکر ہوئے ہیں جن کی وجہ سے عورت اور مرد کے درمیان ہمیشہ کے لئے شادی حرام ہو جاتی ہے:

لعان: زوجہ اور شوہر کے درمیان لِعان ہوجانے سے وہ دونوں ایک دوسرے کے لئے حرام ہو جاتے ہیں۔[5] لعان، زوجہ اور شوہر کے درمیان ایک طرح کا مباہلہ ہے جو شوہر کی طرف سے زوجہ پر زنا کے الزام لگانے کے نتیجہ میں حد کو دفع کرنے اور فرزند کی نفی کے لئے ہوتا ہے۔[6]

زوجہ کوتین طلاق دینا: شیعہ فقہ کے مطابق اگر کوئی مرد اپنی زوجہ کو تین مرتبہ طلاق دے دے تو وہ اس عورت سے دوبارہ شادی کرنے کا حق نہیں رکھتا مگر حلالہ کے بعد (یعنی کوئی مرد اس عورت سے شادی کرے اور اس کے بعد اس کو طلاق دے)۔[7]. واضح رہے کہ مشہور شیعہ فقہاء کے مطابق تین بار لفظ طلاق کے کہنے سے تین طلاق واقع نہیں ہوتی۔[8]

افضاء: اگر کوئی مرد، کسی عورت کے سن بلوغ تک پہونچنے سے پہلے اِفضاء کر دے تو وہ عورت ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہو جاتی ہے۔[9] افضا یعنی پیشاب اور حیض کے مقام کا ایک کردینا۔[10]

زنا: فقہا کی مشہور نظر کے مطابق اگر کسی مرد نے کسی عورت کے ساتھ شادی کرنے سے پہلے اس کی ماں یا اس کی بیٹی کے ساتھ زنا کیا ہو تو وہ عورت اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے۔[11] اسی طرح کسی شوہردار عورت یا طلاق رجعی کی عدت گزارنے والی عورت سے زنا کرنے کے سبب وہ زانی پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے۔[12]

لواط: اگر کسی مرد نے کسی عورت سے شادی کرنے سے پہلے اس کے بیٹے، بھائی یا باپ سے لواط کیا ہو تو وہ عورت ہمیشہ کے لئے اس پر حرام ہو جاتی ہے۔[13]

عدّت کی حالت میں شادی کرنا: اس عورت سے شادی کرنا جائز نہیں ہے جو عدّہ میں ہے، [14] لہذا اگر اس علم کے باوجود شادی کرے کہ عورت عدت میں ہے اور اس سے شادی کرنا حرام ہے تو وہ عورت ہمیشہ کے لئے مرد پر حرام ہو جاتی ہے چاہے جماع نہ ہوا ہو۔[15] لیکن جہل کی صورت میں، اگر دخول ہوا ہو، تو عورت مرد پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے اور اگر دخول نہ ہوا ہو، تو صرف عقد نکاح باطل ہے اور عدت مکمل کرنے کے بعد اس عورت کے ساتھ دوبارہ شادی کر سکتا ہے۔[16]

احرام: مرد اور عورت کا احرام کی حالت میں شادی کرنا حرام اور باطل ہے۔[17] حالت احرام میں شادی کی حرمت سے آگاہی کے باوجود، شادی کرنے سے عورت ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے چاہے دخول نہ ہوا ہو۔[18] مشہور فقہاء کے مطابق، جہالت کی صورت میں حتی اگر جماع کیا ہو تب بھی صرف عقد باطل ہوتا ہے۔[19]

حوالہ جات

مؤسسہ دائرة المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷شمشی ھجری، ج۳، ص۲۹۱۔

اکبری، احکام روابط محرم و نامحرم، ۱۳۹۲شمشی ھجری، ص۲۴۔

مجتہدی تہرانی، سہ رسالہ: گناہان کبیرہ، محرم و نامحرم، احکام‌الغیبہ، ۱۳۸۱شمشی ھجری، ص۱۸-۱۹۔

مؤسسہ دائرة المعارف الفقہ الاسلامی، فرہنگ فقہ فارسی، ۱۳۸۷شمشی ھجری، ج۱، ص۳۹۲۔

نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲شمشی ھجری، ج۳۴، ص۳-۴۔

شہید ثانی، الروضة البہیة، ۱۴۱۰ھ، ج۶، ص۱۸۱۔

شیخ مفید، المقنعہ، ۱۴۱۳ھ، ص۵۰۱۔

مؤسسہ دایرۃ المعارف فقہ اسلامی، فرہنگ فقہ، ۱۳۸۹ش، ج۴، ص۵۵۷۔

شہید ثانی، الروضة البہیة، ۱۴۱۰ھ، ج۵، ص۱۰۴-۱۰۵۔

نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲شمشی ھجری، ج۲۹، ص۴۱۹۔

شہید ثانی، مسالک‌الافہام، ۱۴۱۳ھ، ج۷، ص۲۹۷-۲۹۸۔

نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲شمشی ھجری، ج۲۹، ص۴۴۶۔

محقق حلی، شرایع الاسلام، ۱۴۰۸ھ، ج۲، ص۲۳۳۔

امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۴۳۴ھ، ج۲، ص۳۰۳۔

امام خمینی، تحریرالوسیلہ، ۱۴۳۴ھ، ج۲، ص۳۰۳۔

مؤسسة دائرة المعارف الفقہ الاسلامی، الموسوعةالفقہیة، ۱۴۲۹ھ، ج۱۰، ص۴۷۳۔

نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲شمشی ھجری ج۲۹، ص۴۵۰۔

نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲شمشی ھجری، ج۲۹، ص۴۵۰۔

نجفی، جواہرالکلام، ۱۳۶۲شمشی ھجری، ج۲۹، ص۴۵۰۔

 

No comments:

Post a Comment