اسلامي تربيت كي اهميت اور اس کے اهم اصول

مقدمه:

قرآن وسنت کى نگاه مىں تربىت اس قدر اهم هے که قرآن مجىد نے اسے انبىاء کى بعثت کے اهداف مىں سے قرار دىا هے:چنانچه ارشادبارى تعالى هوتا هے "هُوَ الَّذِى بَعَثَ فىِ الْأُمِّيِّنَ رَسُولًا مِّنهْمْ يَتْلُواْ عَلَيهْمْ ءَايَاتِهِ وَ يُزَكِّيهِمْ وَ يُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَ الحْكْمَةَ وَ إِن كاَنُواْ مِن قَبْلُ لَفِى ضَلَالٍ مُّبِين ‏:1 وه خدا جس نے ناخواندہ لوگوں میں انہی میں سے رسول بھیجا جو انہیں اس کی آیات پڑھ کر سناتا ہے اور انکى تربىت کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی تعلیم دیتا ہے جب کہ اس سے پہلے یہ صریح گمراہی میں تھے۔ پس معلوم هوا که انبىاء آئے تاکه اس خاکى انسان کو تعلىم وتربىت کے زىور سے آراسته کرکے اس مىں انسانىت کى روح پھونکر اسے عرشى اور الھى بناىا جاے ۔ چنانچه اسى اهمىت کے پىش نظر اس مختصر مقالے مىں تعلىم کے ساتھ اسلامى تربىت کى ضرورت ؛ اسلامى تربىت کےچند اهم اصولوں کو زىر قلم لانے اور همارى حالىه تعلىمى نظام مىں تربىتى بحران کے اسباب کا جا ئزه لىنے کے ساتھ ساتھ اس سے نجات دلانے کےلئے کچھ تجاویزپیش کرنےکى کوشش کى هے ۔

تربىت کا لغوى معنى ۔ 

تربىت عربى کا لفظ هے جسے مادۃرببَََ ىا ربَو سے لىا گىا هے جسکا مطلب کسى چىز کى پرورش کرنا ىا کسى چىز کے رشد کرنے کے اسباب اورعوامل کا فراهم کرکے اسے اپنے کمال کے مرحلے تک پهنچانا هے جىسا که معجم مقایئس اللغۃ مىں اسطرح آىا هے: ربَوَ او ربى يدلُ على الزيادۃ او النماء و العلو: ىعنى ربو ىا ربى ؛ رشد ؛ زىادہ ہونے، بڑھنے ،اوربلندی کے معنى مىں آتا هے ۔2

تربىت کا اصطلاحى معنى: اگر چه علم تربىت کے ماهرىن نے مختلف قسم کى تعرىفىں بیان کى هىں لىکن تربىت کے اصول اور اهداف کو مد نظر رکھتے هوئےىه کهه سکتے هىں که تربىت پرورش کرنے کا نام هے ىعنى کسى شى کے اندر قابلىت ہونے کى صورت مىں موجوده صلاحىتوں اور استعداد کو واقعى اور حقىقى صورت عطا کرنا اور انهىں پروان چڑھانا هے ۔

تعلىم کے ساتھ تربىت کى ضرورت ۔

تعلىم وتربىت انسان کى کامىا بى کى بنىاد هیں کسى بھى معاشرے مىں تعلىم کے ساتھ تربىت کى ضرورت اس وقت کھل کر سامنے آتى هے که هم جب تعلىم کے معنى اور مفهوم سے آشنا هو جائیں کىونکه تعلىم کا معنى صرف ىاد کرانااور معلومات دىنا هے چنانچه تعلىم کے لحاظ سے متعلم ىا تعلىم لىنے والا سٹوڈن صرف ىاد کرنے والا هوتا هے اسکا دماغ گودام کى طرح هے که کچھ معلومات اس مىں ڈلى جاتى هے لىکن اسے اس انسان مىں اس متعلم مىں ذھنى ؛فکرى رشد اور استقلال نهىں آتا اور نه هى اس شخص مىں انسانى اقدار اور خدادادى صلاحىتىں بىدار هونگى لهذا ىه انتهائى نقص شمار هوگا که اىک مربى اور اور اىک معلم کا هدف صرف اور صرف ىهى هو که وه کچھ معلومات ؛اطلاعات ؛؛اور فارمولے طالب علم کے دماغ مىں ڈالے اور اسکے ذهن مىں ذخىره سازى کردے اور اسکا ذھن اىک اىسے حوض کى مانند هو جائے جس مىں تھوڑا سا پانى جمع هے جىسا که عام طور پر همارے تعلىمى اداروں مىں ىهى فکر پائى جاتى هے اورتعلىم تربىت کے ذمه دار افراد اسى سوچ کے ساتھ تعلىمى اداروں مىں قدم رکھتے هىں:

جبکہ اىک معلم اور مربى کا هدف بلند اور اعلى هونا چاهىے اور ىعنی متعلم کى فکرى توانائى اور ذھنى صلاحىتوں کو پروان چڑهائے اسے فکرى استقلال ؛ خود اعتمادى ؛ خود اختىارى بخشے اسکى ابداع اور اىجاد کى قوت کو حىات بخشے اسکے جسمانى اور تعلىمى نشونما کے ساتھ ساتھ اسکے عقىدتى ؛ اىمانى اور اخلاقى اقدار بھى پروان چڑھے ۔لهذا اسلام نے جس قدر تعلىم کے مسئلے پر زور دىا هے اسى قدر تربىت کو بھي مهم جانا هے لىکن موجوده دور مىں جهاں انسان نے علم مىں ترقى کى هے وهاں تربىت کو پس پشت ڈال دىا هے ىا تربىت کو اىک خاص زاوىے سے دىکھا هے جسکى وجه سے معاشرے مىں برائىاں جنم لے رهى هىں اور هر جگه ظلم وبربرىت کا بول بالا هے لهذا اگر آئنده نسل کو تباهى سے بچانا هو تو همىں تربىت کى طرف توجه دىنا پڑے گى اور خاص طور پر دىنى تربىتى نظام سے مدد لىنا هو گا۔چنانچہ اس حقىقت کے پىش نظر همىں سب سے پهلے حالىه تعلىمى نظام مىں تربىتى بحران کے اسباب ڈھونڈنا پڑے گا پھر اس سےنجات حاصل کرنے کے راستوں کوتلاش کرناہوگا۔

حالىه تعلىمى نظام تربىتى بحران کے شکار هونے کا اسباب:  اس باب مىں بهت هى اختصار کے ساتھ ىه کهہ سکتے هیں که حالىه تعلىمى نظام تربىتى بحران کے شکار هونے کا اهم ترىن سبب خود انسان شناسى کامسئلہ ہےکىونکه تربىت کا موضوع خود انسان هے اور اس دور مىں مختلف مکاتب فکر نے ماهىت انسان کى پهچان اور شناخت مىں وجود انسان کے مختلف ابعاد اور مختلف زاوىوں کو نظر انداز کیےهیں اور بهت هى محدود زاوىےسے انسان کو دىکھا هے اور انهى محدود نگاهوں کو اپنے تعلىمى اور تربىتى نظام کا بنىاد اور اساس قرار دىا هے جسکى وجه سےآج مختلف تربىتى نظام ان مسائل کو حل کرنے سے قاصر هیں چنانچه هم ىهاں انسان شناسى کے اس باب مىں تین نظرىے نقدکے ساتھ ذکر کرتے هىں ۔

1۔مادى رجحان کا حامل نظرىه:

جدىد علوم کے بعض ماهرىن نے مادى بنىاد پر اس انسان کو دىگر مادى موجودات کے برابر قرار دىےهیں اور انسان کوجسمانى اور مادى موجود سے پهچانا هے جسکا اپنا کوئى اراده نهىں اور نه هى ماضى اورآئنده سے اسکا کوئى رابطه هے بلکه موت کے آنے سے اسکى زندگى ختم هو جاتى هے ۔اب جس تعلىمى اور تربىتى نظام کا بىسک اور بنىاد اس نظرىے پر قائم هو تو خواه نا خواه تربىتى بحران کا شکار هونا هى تھا لىکن خوش بختى سے آج اس نظرىے کا کوئى حامى نهىں ملتا کىو نکه اس نظرىئے کا عقلاًاور فطرتاً باطل هونا کسى پر مخفى نهىں هے 3

2۔سماجى رجحان کا حامل نظرىه: عصر حاضر مىں سماجىات اور انسانى علوم کے بعض ماهرىن نے انسان کو سماجى اور اجتماعى زاوىے سے پهچنوائےهیں انکا کهنا هےکہ انسان اىک سماجى اور اجتماعى موجود هے لهذا اسکى وىسے تربىت هونى چاهىے جىسے سماج هو گا ىعنى آدمى کو اىک اىسى موقعىت مىں لا کر کھڑا کرنا هے جسکى وجه سے فرد خود بخود معاشرے مىں جارى کلچر ، رسومات اورآداب سیکھ لے ۔

ان نظرىات کی خامىاں:

1 ۔سب سے پهلے ىه کہ ان نظرىات کے حامل افراد نے انسان کو بن گلى مىں ڈال کر اسے بهت هى محدود زواىوں مىں پهچاننے کى کوشش کى هیں جبکه انسان کے ابعاد وجودى اس سے کهىں زىاده وسىع اور گسترده هیں جس طرح امىر المومنىن على علىه السلام انسان کى حقیقت کے بارے مىں فرماتے هىں۔

اتحسب أنك جرم صغير

 و فيك انطوى العالم الأكبر

و انت الكتاب المبين الذي

 بأحرفه يظهر المضمر4

اے انسان کىا تو ىه سوچتا هےکه تو اىک چھوٹا سا ذرہ هے در حالیکه تىرے اندر اىک بهت بڑا عالم پوشیدہ هوا هے ۔

2۔ اکثر سماجى اور اجتماعى سوچ کے حامل افراد نے عاطفه اور احساسات کو اپنے تربىتى نظام کى بنىاد قرار دىتے هوئے اسى کو رشد دىنے کى کوشش کى هیں اور انسان کے عقلانى ابعاد سے چشم پوشى کى هیں جبکه مکتب اسلام نے اپنے تربىتى نظام کى بنىاد کو عقل وفکر قرار دىتے هوے تعقل اور تفکر کى روشنى مىں انسان کے فکرى ؛ عقلى ؛نفسىاتى ؛ اخلاقى ؛ اور دىگر سماجى قوتوں کو پروان چڑھانے کى کوشش کى هے ۔

3۔ عالم غرب مىں رائج کلچر اور تهذىب جو حقىقت مىں ضد دىن ؛ ضد مذهب ؛ ضد اخلاق اور ضد انسانىت هے لهذا انکے تعلىمى اداروں او ر درسگاهوں مىں انهى ثقافت اور تهذىب کى بنىاد پر تربىت دى جاتی هے جسکى وجه سے معاشرے مىں برائىاں جنم لے رهى هىں اور هر جگه ظلم وبربرىت کا بول بالا هے اور پورا معاشره افراط و تفرىط کاشکار هو کر اپنا تعادل کھو دىا هے

راه حل:

حالىه تعلىمى نظام کے تربىتى بحران کا اهم ترىن سبب انسان شناسى اور انسان کى عدم شناخت ہے تو بهترىن راه حل ىه ہےکه هم سب سے پهلے اس انسان کواسى طرح پهچاننے کى کوشش کریں جس طرح خالق انسان نے اسے پهچانواىا هےکىونکه وهى ذات سب سے بڑھ کر انسان کے تمام اسرار اور ابعاد سے آگاه اور واقف هے ۔چنانچه اس بارے مىں ارشاد بارى تعالى هوتا هے" وَ أَسِرُّواْ قَوْلَكُمْ أَوِ اجْهَرُواْ بِهِ إِنَّهُ عَلِيمُ بِذَاتِ الصُّدُورِ" ور تم لوگ اپنی باتوں کو چھپاؤ یا ظاہر کرو یقینا وہ تو سینوں میں موجود رازوں سے خوب واقف ہے۔" أَ لَا يَعْلَمُ مَنْ خَلَقَ وَ هُوَ اللَّطِيفُ الخْبِير"بھلا جس نے پیدا کیا وہ نهىں جانتا ؟ وہ تو پوشیدہ باتوں کا جاننے والا اور (ہر چیز سے) آگاہ ہے5

اسى پهچان کى بنىاد پر تربىتى نظام وضع کرنے کى ضرورت هے بلکه ىوں کها جائے که اسلام مىں تربىتى نظام پهلے سے آماده هے صرف اسے نافذ کرنے کى ضرورت هے اسلام کے تربىتى نظام مىں تعلیم،تفکر اور استقلال کے بارے مىں گفتگو هوتی هے تو انسان کے عقلانی اور روحانی راویوں کے بارے میں بھی گفتگوہوتی ہے۔ اس مقدس نظام مىں انسان کے دنىوى اور مادى زندگى کو مورد توجه قرار دىا هے اور اسے صحىح راه مىں پروان چڑھانے کے بهترىن فارمولے پىش کىا هے تو ساتھ ساتھ اسکے معنوى اور اخروى زندگى کو بھى مورد توجه قرار دىاہے معنوى مسائل کو حل کرنے اور اسے کمال سے هم کنار کرنے کے لىے بهترىن اصولوں سے آشنا کرانےکے ساتھ ساتھ اسکے ترقى اور کمال کى راه مىں پىش آ نے والى رکاوٹوں ؛ دشوارىوں اور سختىوں کو دور کرنے کے بهترىن راه حل پىش کىا هے اس نظام مىں سماج ؛فرد اور نوع بشر سب کو مورد توجه قرار دىا هے اور تمام انسانى اقدار او رتوحىد کی راہ مىں حرکت دىنے کا بهترىن سامان فراهم کىا هے هم ىهاں چند اهم اسلامى اصولوں سے آشنا کرانے کى کوشش کرتے هىں ۔

اسلامى تربىت کے چند اهم اصول: دىن مقدس اسلام نے انسانوں کے اندر موجوده تمام نہفته قوتوں اور مختلف ابعاد کے درمىان توازن اور تعادل کو برقرار رکھنے کیلئے مختلف اصولوں کووضع کیاہےاور عملى زندگى مىں تطبىق دىنے اور اس پر عمل پىرا هونے کو ضرورى سمجھا هے انهى اصولوں مىں سے اىک۔

1۔قوه اراده کى تقوىت:

انسان کى ان استعدادات مىں سے ایک جن کى قطعى طور پر تعلىم کے ساتھ ساتھ پرورش هونى چاهىے اراده هے اراده اىک اندرونى اور باطنى قوت هے انسان ارادے کے ذرىعے اپنے آپ کو بىرونى طاقتوں کے اثر سے خارج اور مستقل کرتا هے اراده جتنا قوى هو گا انسان کى قوت اختىار اتنى زىاده هو گى اور وه خود پر اپنے افعال پر اور اپنى سرنوشت پر زىاده مسلط هو گا۔

دنىا مىں کوئى بھى نظرىه اىسا نهىں هے جو اس بات مىں ذرا بھى شک کرے که ارادے کو انسان کى خواهشات پر حاکم هونا چاهے لىکن بات اس مىں هے که اس مطلب کو عملى صورت دىنے کا طرىقه کىا هے ىا ىوں کها جاے عقل اور اراده کو خوهشات ؛ هواوهوس ؛ لذت پرستى ؛ شهوت پرستى اور لا ابالى پر غالب آنے کا ضامن کىا هے ؟ ىقىناً اسلام مىں اسکا تنها ضامن اىمان ؛ تقوى اور تزکىه نفس هے۔چنانچه ارشاد بارى تعالى هوتا هے۔" إَن تَتَّقُواْ اللّهَ يَجْعَل لَّكُمْ فُرْقَاناً”اگر تم اللہ کا تقوٰی اختیار کرو گے (تو) وہ تمہارے لئے حق و باطل میں فرق کرنے والی حجت (و ہدایت) مقرر فرما دے گا "اسى طرح فرامىں معصومىن سے معلوم هوتا هے که تقوى اور پرهىزگارى کى مثال رام گھوڑے کى طرح هے که جسکا لگام سوارکے هاتھ مىں هے جبکه گناه ،خطاء اور بےتقوى اس سرکش گھوڑے کى مانند هے جو سوارسے اختىار چھىن لىتا هے اور اسے گمراهى کے گودال مىں گرا دىتا هے ۔چنانچه امىر المومنىن على ؑاس بارے مىں نهج البلاغه مىں فرماتے ۔ ۔"أَلَا وَ إِنَّ الْخَطَايَا خَيْلٌ شُمُسٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَا وَ خُلِعَتْ لُجُمُهَا فَتَقَحَّمَتْ بِهِمْ فِي النَّارِ أَلَا وَ إِنَّ التَّقْوَى مَطَايَا ذُلُلٌ حُمِلَ عَلَيْهَا أَهْلُهَ6۔ خبر دار گناهوں کى مثال اىسے سرکش گھوڑوں کى طرح هے جو سوارى سے اختىار سلب کر لىتے هىں اور اسے گمراهى اور جهنم کى آگ مىں گرا دىتے هىں جبکه تقوى کى مثال اس رام گھوڑوں کى طرح هے که ىهاں پر لجام سوار کے هاتھ مىں هے نه که سوارى کےاختیار مىں۔ لهذا اىک مربى اور تعلىم وتربىت کے ذمه دار شخص کى ذمه دارىاپنے تعلىمى فرائض سر انجام دىنے کے ساتھ ساتھ اپنے شاگردوں کو تقوى اور اىمان بھي سکھانا هے ۔

2۔ روح عدالت خواهى کو اجاگر کرنا ۔

اسى طرح اسلامى تعلىمات مىں اصلاح نفس اور تربىت کے اصولوں مىں سے اىک روح عدالت خواهى کى پرورش کرنا هے عدالت انسانى اور زندگى کى روح اور حىات هے وه معاشره جس مىں ظلم اور بے عدالتى رائج هو اس معاشرے مىں انسانوں کى انسانىت پامال هو جاتى هے اسى اهمىت کے پىش نظر اسلام کى نگاه مىں انبىاءِ الھى کےبھیجے جانے اور کتبِ آسمانى کے نازل کرنے کا اىک اهم مقصد اور ہدف معاشرے مىں عدل وانصاف قائم کرنا هے چنانچه ارشاد بارى تعالى هوتا هے۔"لَقَدْ أَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَيِّنَاتِ وَ أَنزَلْنَا مَعَهُمُ الْكِتَابَ وَ الْمِيزَانَ لِيَقُومَ النَّاسُ بِالْقِسْط"7بتحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلائل دے کر بھیجا ہے اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان عدل نازل کیا ہے تاکہ لوگ عدالت پر قائم رهیں۔اسى طرح ایک اور مقام پر پروردگار عالم همىں عدل و انصاف قائم کرنےکا حکم دىتا هے ۔" إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاحْسَان"8 یقینا اللہ عدل و احسان قائم کرنے کا حکم دیتا ہےاس طرح کے اور بھى دسیوں قرآنى آىات اور رواىات اس بنىادى اصل کو زندگى کے تمام شعبوں مىں رواج دىنے اور اسے پروان چڑانے کى تاکىد کرتے هىں ۔

لهذا اىک مربى اور تعلىم وتربىت کى ذمه دار شخص کى اهم ذمه دارىوں مىں سے اىک ىه هے که خود عادل هواور اپنے شاگردوں مىں بھى روح عدالت خواہى کو اجاگر کرنے کى کوشش کرے ۔

3۔حس حقىقت جوئى کى تربىت:

 تربىتى میدان مىں اىک اور اهم مسئله حقىقت جوئى کى حس کو تونائى بخشنا هے کهتے هىں کم وبىش هر انسان فطرتاً حقىقت کا متلاشى اور کوشش کرنے والا هوتا هے اسى وجه سے انسان علم کے پىچھے جاتا هے اور مختلف مىدانوں مىں آئے دن نت نئے انکشافات رونما هوتی هىں ۔خو دتارىخ اسلام اس بات کى شاهد هے که پهلى صدى ہجرى مىں ىعنى خود رسول اکرمﷺکی زندگى مىں هى پڑھنا،لکھنا، پڑھانا اور مختلف زبانىں سىکھنا شروع هو چکا تھا اور ىه چىز علوم دىنى سے شروع هو کر سائنس ؛فلسفه اوردیگرعلوم تک جا پهنچى ہے ۔

4۔ تقوا اور پرهىزگارى ۔

 اسلامى تربیتی اصولوں مىں سے اىک جسکے انسانى زندگى مىں سب سے بڑاکردار هے وه تقوى اور پرهىزگارى ہے۔تقوى وقى ىقى سے هے جس سے مراد بچاناىا پرہىزکرنا هے ىعنى نفس کو ان چىزوں سے بچا لىنا هے جس سے نفس کو نقصان پهونچتا هو ۔ لىکن دىنى اصطلاح مىں تقوى سے مراد نفس کو اس طرح رام کرنا هے جس کى وجه سے انسان خطاء ،گناه ،پلىدىوں اور برائىوں سے خود بخود باز آئے ۔دىنى تعلىمات مىں غور کرنے سے هم اس نتىجے پر پهنچتے هىں که اسلام نے هر دور مىں قدرت ، ثروت،قومىت، رىاست،لسانىت اور دىگر توهمات پر مبنى تمام جعلى اور مصنوعى معىاروں کو ٹھکراکر صرف اىک چىز " انّ اکرمکم عند الله اتقاکم "ىعنى تقوا کو معىار قرار دىا هے۔

کىونکه جس طرح امیر المومنىن على ؑنهج البلاغه مىں فرماتے هىں ۔فَإِنَّ تَقْوَى اللَّهِ مِفْتَاحُ سَدَادٍ وَ ذَخِيرَةُ مَعَادٍ وَ عِتْقٌ مِنْ كُلِّ مَلَكَةٍ وَ نَجَاةٌ مِنْ كُلِّ هَلَكَةٍ بِهَا يَنْجَحُ الطَّالِبُ وَ يَنْجُو الْهَارِبُ وَ تُنَالُ الرَّغَائِب‏9 تقوى کامىابى کى کنجى ؛ذخىره معاد،هر قیدوبندسے آزادى اور هر قسم کى هلاکتوں سے نجات کا ذرىعه هے اور تقوى هى کے واسطے انسان اپنے اهداف تک رسائى حاصل کرتاهے اپنے دشمنوں سے نجات پاتا هے اور اپنى آرزوں تک پهنچ پاتاهے ۔ چونکه"فَإِنَّ تَقْوَى اللَّهِ دَوَاءُ دَاءِ قُلُوبِكُمْ وَ بَصَرُ عَمَى أَفْئِدَتِكُمْ وَ شِفَاءُ مَرَضِ أَجْسَادِكُمْ وَ صَلَاحُ فَسَادِ صُدُورِكُمْ وَ طُهُورُ دَنَسِ أَنْفُسِكُمْ وَ جِلَاءُ عَشَا أَبْصَارِكُم‏ وَ أَمْنُ فَزَعِ جَأْشِكُمْ وَ ضِيَاءُ سَوَادِ ظُلْمَتِكُ"01تقوى تمھارے قلبى بىمارىوں کے لىے دوا ،اندھے دلوں کے لىے بصیرت، جسمانى بىمارىوں کے لىے شفا،فکرى کجىوں کى اصلاح ؛ نفسانى آلودگىوں کے لىے صىقل اور آنکھوں پر آئى هوئى پردوں کى پرده درى ؛ دلوں مىں آنے والى خوف وهراس کے لىے اىمن اور تمهارے وجود پر چھائى هوئى تارىکىوں کے لىے روشنى هے ۔لهذا همارے تربىتى ادارے با تقوى افراد کے هاتھوں مىں هونا چاهىے اور اس مىں با تقوى افراد کى تربىت هونى چاهىے ۔

اسى طرح خود اعتمادى ؛ استقلال، دىنى غىرت،عزت نفس ، اىثار ؛ محبت،کوشش جدوجهد،لگن، محنت اورانکےعلاوه بھى دسیوں اىسے سنهرى اسلامى تربىتى اصولوں کو هر مربى هر تعلىم وتربىت کے زمه دار افراد اور تعلىمى اداروں کواپنا نصب العىن قرار دىنا چاهىے اور تعلىم کے ساتھ ساتھ ان اصولوں کا خىال رکھنا انتهائى ضرورى هے ۔

امىد هے پروردگار عالم هم سب کوسماجى زندگى مىں تربىتى ذمه دارى اچھى طرح نبھانے کى توفىق عطا فرمائے انشاءالله ۔

تحریر۔۔ فدا حسین حلیمی

1- سوره جمعه:2:

2- معجم مقایئس اللغۃ: ابن فارس ج:2 ص: 483

3- ص:50:

4- ديوان‏الإمام‏علي(علیه السلام) ص: 179، انتشارات پيام اسلام قم، 1369 هجرى شمس

5- الملک: 13۔۔14:

6- نهج البلاغه:خ 17 ۔

7- حدىد:25

8- نخل: 90

9- خطبه نمبر230-

10- خطبه نمبر 198:

 

No comments:

Post a Comment