محارم

مَحارِم وہ لوگ ہیں جن سے شادی کرنا حرام ہے۔ محارم اور اس کے شرعی احکام قرآن اور فقہ کے مختلف ابواب جیسے، نکاح، طلاق اور میت کے احکام میں ذکر ہوئے ہیں فقہی مآخذ کے مطابق نسب، شادی اور رضاع محرم ہونے کا سبب بنتے ہیں۔ البتہ شادی حرام ہونے کے لیے بعض دوسرے اسباب بھی بتائے گئے ہیں۔ عوامی سطح پر محارم ان رشتہ داروں کو کہا جاتا ہے جن پر حجاب کے احکام نافذ نہیں ہیں۔

محرمیت

مَحْرَم، حرام سے لیا گیا ہے۔ اور جن سے (رَحِم) کی رشتہ داری ہو اور کبھی بھی ان سے شادی جائز نہیں ہے، ان کو کہا محرم[1] اور ان کے باہمی نسبت کو محرمیت کہا جاتا ہے۔ قرآن کی دو آیتوں میں محارم اور اس کے احکام ذکر ہوئے ہیں؛سورہ نساء آیہ 23 میں محارم اور ان سے شادی حرام ہونے کا تذکرہ ہوا ہے۔[2]سورہ نور میں بھی بعض محرم عورتوں کی گنتی کی ہے۔[3]

فقہا کی نظر میں حجاب اور بدن چھپانے کے احکام محارم کے لیے واجب نہیں ہے۔[4]

محرمیت کے اسباب اور محارم کی اقسام

نسبی محارم

کسی ایک یا چند نفر کی تولد سے ایجاد ہونے والی نسبت کو نسبی رشتہ داری کہا جاتا ہے اور نسبی محارم ان لوگوں کو کہا جاتا ہے جن کی ولادت سے ہی یہ رابطہ قائم ہوا ہے۔ فقہی کتابوں میں باپ، دادا، نانا، بیٹا، پوتے، چچا، ماموں، بھائی، بھتیجے اور بھانجے عورت کے لیے نسبی محالم ہیں۔ اسی طرح ماں، نانی، دادی، بیٹی، پوتیاں، خالہ، پھوپھی، بہن، بھانجی، اور بھتیجیاں مرد کیلیے نسبی محارم ہیں۔[5]

شادی سے بننے والے محارم

فقہ اسلامی کے مطابق بعض افراد شادی اور رضاع کے ذریعے محرم بنتے ہیں۔ اسی لیے شادی اور رضاع محرم بنانے کے دیگر اسباب شمار ہوتے ہیں۔

سببی محارم

وہ لوگ جو شادی کے ذریعے اور نکاح پڑھنے سے عورت کے بعض رشتہ دار مرد کے اور مرد کے بعض رشتہ داری عورت کے محرم بنتے ہیں اور انہیں محارم سببی کہا جاتا ہے۔[6]شادی کے ذریعے، سسر، شوہر کا دادا اور نانا، عورت پر نیز ساس اور بیوی کی دادی و نانی مرد کیلیے محرم ہیں۔[7]

محرمیت کا رابطہ ہمیشہ کے لیے ہے اور محارم سے شادی حرام ہونا بھی ہمیشہ کے لیے ہے اور اسے حرام ابدی کہا جاتا ہے۔[8]

دودھ پینے سے بننے والے محارم

دودھ پینے والا بچہ اور اس کو دودھ پلانے والی عورت اور اس عورت کے بعض رشتہ دار؛ جیسے شوہر، اولاد کے ساتھ بھی محرمیت ایجاد ہوتی ہے۔[9] فقہ اسلامی میں اس رابطے کو برقرار کرنے کے لیے کچھ شرائط بیان ہوئی ہیں؛ جیسے بچے کی عمر دو سال سے کم ہو؛ اور دودھ پلانے والی عورت شرعی طریقے سے حاملہ ہوئی ہو۔[10]

بعض دوسرے موارد

بعض دیگر اسباب بھی ہیں جو شادی حرام ہونے کا باعث بنتے ہیں جیسے؛

    بیوی کو تین طلاق دینا: شیعہ فقہ کے مطابق اگر شوہر بیوی کو تین مرتبہ طلاق دے تو چوتھی مرتبہ اس سے شادی نہیں کر سکتا ہے مگر یہ کہ حلالہ کرے (کوئی اور اس عورت سے شادی کرے اور پھر طلاق دے)۔[11]

   کفر اور ناصبی ہونا بھی نکاح حرام ہونے کے اسباب میں سے قرار دئے گئے ہیں۔[12]

حرمت ابدی

شیعہ فقہ میں مرد اور عورت کی آپس میں شادی ہمیشہ کے لیے حرام ہونے کے بعض اسباب بیان ہوئے ہیں۔ بیوی کو نو مرتبہ طلاق دینے کے بعد؛[13]کسی ایسی عورت سے نکاح کرنا جو ابھی کسی کے طلاق کے عدہ میں ہو،[14] زنائے محصنہ؛ (شوہر دار عورت سے زنا)[15] لعان،[16] کو حرام موبد کے اسباب قرار دیے گئے ہیں۔ اسی طرح لواط بھی سبب بنتا ہے کہ لواط کرنے والے پر جس سے لواط کی ہے اس کی ماں، بیٹی اور بہن ہمیشہ کے لیے حرام ہیں۔[17]

حوالہ جات

فراہیدی، العین، ۱۴۱۰ق، ج۳، ص۲۲۲.

سورہ نساء، آیہ۲۳.

سورہ نور، آیہ۲۱.

رسالہ توضیح المسائل مراجع، بخش نکاح، مسئلہ ۲۴۳۷.

امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم‌، ج۲، ص۲۶۳-۲۶۴؛

خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ص۱۹۸۸.

امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم‌، ج۲، ص۲۶۴.

خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ص۱۹۸۹.

امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم‌، ج۲، ص۲۸۰.

خرمشاہی، دانشنامہ قرآن و قرآن پژوہی، ۱۳۷۷ش، ص۱۹۸۸.

مفید، المقنعہ، ۱۴۱۳ق، ص۵۰۲-۵۰۳؛ امام خمینی، تحریرالوسیلہ، دارالعلم‌، ج۲، ص۲۶۵.

مفید، المقنعہ، ۱۴۱۳ق، ص۵۰۱.

مفید، المقنعہ، ۱۴۱۳ق، ص۵۰۰.

مفید، المقنعہ، ۱۴۱۳ق، ص۵۰۱.

مفید، المقنعہ، ۱۴۱۳ق، ص۵۰۱

مفید، المقنعہ، ۱۴۱۳ق، ص۵۰۱

محمد حسن نجفی، جواہر الکلام،ج30 ص27

 

No comments:

Post a Comment