عصمت انبیاء پر شبہات کا ازالہ

 


تحریر: سید علی اصدق نقوی

عصمت انبیاء ایسا عقیدہ ہے جو تمام مسلمانوں میں پایا جاتا ہے، کوئی شاذ و نادر فرقہ ہی ہے جو اس کو نہیں مانتا ورنہ اکثریت اس کی قائل ہے۔ اہل سنت کے یہاں انبیاء کی عصمت کا عقیدہ تو ہے لیکن ساتھ ہی وہ مطلقا عصمت کے قائل نہیں کیونکہ ان میں سے بہت سے مانتے ہیں کہ انبیاء انجانے میں کبائر انجام دے سکتے ہیں اور صغائر یعنی صغیرہ گناہ بھی کر سکتے ہیں اگرچہ ایک اقلیت نظریہ ان کے یہاں یہ بھی ہے کہ وہ صغیرہ و کبیرہ گناہان سے بھی مبرا و منزہ ہیں، اس کے لیئے قاضی عبد الجبار کی کتاب اور دیگر اعتقادی کتب سے رجوع کیا جا سکتا ہے۔ ابن تیمیہ نے بھی کہا ہے کہ انبیاء سے کبائر نہیں ہو سکتے مگر صغائر یعنی چھوٹے گناہ ہو سکتے ہیں (1)۔ اہل تشیع کے یہاں انبیاء و مرسلین ہر قسم کے گناہ سے پاک ہیں اور کبھی انجام نہیں دیتے، جیسا کہ شیخ صدوق لکھتے ہیں:

[٣٦] باب الإعتقاد في العصمة قال الشيخ أبو جعفر رضي ‌الله ‌عنه: اعتقادنا في الأنبياء والرسل والأئمّة والملائكة صلوات الله عليهم أنّهم معصومون مطهّرون من كل دنس، وأنّهم لا يذنبون ذنباً ، لا صغيراً ولا كبيراً، ولا يعصون الله ما أمرهم، ويفعلون ما يؤمرون. ومن نفي عنهم العصمة في شيء من أحوالهم فقد جهلهم.

باب: عصمت پر اعتقاد۔ شیخ ابو جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہمارا اعتقاد انبیاء، رسولوں، ائمہ اور ملائکہ صلوات اللہ علیہم کے بارے میں یہ ہے کہ وہ معصوم ہیں، ہر پلیدی سے پاک ہیں، اور کہ وہ کوئی گناہ نہیں کرتے، نہ چھوٹا نہ بڑا، اور اللہ کے حکم کی معصیت نہیں کرتے، اور جو حکم دیا گیا ہو وہ کرتے ہیں، اور جو ان سے ان کے احوال میں سے کسی چیز میں عصمت کی نفی کرے تو اس نے ان کو جانا ہی نہیں۔ (2)

بکلہ خود ائمہ ع نے بھی ان شبہات کے ردود دیئے ہیں جو عصمت انبیاء پر کیئے گئے ہیں جیسے امام رضا ع کا مامون کے دربار میں اس متعلق کلام مروی ہے (3)۔ اب سوال آتا ہے کہ اس عقیدے کی اساس کیا ہے۔ کیا قرآن میں کوئی صریح آیت ہے عصمت انبیاء پر؟ ایسی کوئی صریح آیت نہیں ہے جس میں لکھا ہو کہ انبیاء معصوم ہوتے ہیں، بلکہ بعض روایات میں بظاہر اس کی نفی ملتی ہے جن کی ہم تحقیق پیش کریں گے۔ البتہ بہت سی احادیث میں انبیاء ع کی عصمت کا بیان آیا ہے (4)۔ کچھ آیات ہیں جن پر اشکال وارد کیا جاتا ہے کہ ان سے عصمت انبیاء کی نفی ہوتی ہے، اس کے رد میں علماء نے مستقل کتب لکھی ہیں جیسے سید مرتضی علم الہدی کی کتاب تنزیہ الانبیاء ہے جس میں ان آیات کے بارے میں غلط فہمی کا جواب ہے، فخر الدین رازی کی کتاب عصمت الانبیاء بھی قابل ذکر ہے اور دیگر علماء نے بھی اپنی کتب میں ان آیات پر کلام کیا ہے جیسے آیت اللہ ہادی معرفت کی کتاب شبہات و ردود حول القرآن الکریم۔ ائمہ ع کے متعلق بھی شبہات ہیں جیسے امام علی ع کا سورہ الکافرون میں (معاذ اللہ) غلطی کرنا یا امام حسن ع کا صلح کرنا یا امام حسین ع کا کربلاء جانا وغیرہ۔ ان کے چونکہ مفصل جوابات موجود ہیں تو ہمیں ان کے لیئے متعلقہ علماء کی کتب سے رجوع کیا جا سکتا ہے جنہوں نے ان کی توضیح و توجیہ بیان کی ہے۔ اب آتے ہیں ان آیات کی طرف جن سے استدلال کیا جاتا ہے، شروع کرتے ہیں آدم ع کے ذکر سے۔

آدم ع کا مبینہ گناہ

یہ بات معروف ہے کہ آدم ع کو اللہ نے درخت کے پاس جانے سے منع کیا تھا مگر اس کے باوجود انہوں نے اس درخت سے کھا لیا جس کے سبب ان کو جنت سے نکال دیا گیا۔ آیت میں ہے:

وَقُلْنَا يَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ وَكُلَا مِنْهَا رَغَدًا حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿البقرة: ٣٥﴾

اور ہم نے کہا کہ اے آدم علیہ السّلام! اب تم اپنی زوجہ کے ساتھ جنّت میں ساکن ہوجاؤ اور جہاں چاہو آرام سے کھاؤ صرف اس درخت کے قریب نہ جانا کہ اپنے اوپر ظلم کرنے والوں میں سے ہوجاؤگے۔

اور دوسری جگہ ہے:

وَيَا آدَمُ اسْكُنْ أَنتَ وَزَوْجُكَ الْجَنَّةَ فَكُلَا مِنْ حَيْثُ شِئْتُمَا وَلَا تَقْرَبَا هَـٰذِهِ الشَّجَرَةَ فَتَكُونَا مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿الأعراف: ١٩﴾

اور اے آدم علیہ السّلام تم اور تمہاری زوجہ دونوں جنّت میں داخل ہوجاؤ اور جہاں جو چاہو کھاؤ لیکن اس درخت کے قریب نہ جانا کہ ظلم کرنے والوں میں شمار ہوجاؤ گے۔

یعنی اس درخت کے قریب آکر وہ ظالموں میں شمار ہوجائیں گے۔ پھر جب وہ اس درخت سے کھا لیتے ہیں تو چند آیات بعد ملتا ہے:

قَالَا رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿الأعراف: ٢٣﴾

ان دونوں نے کہا کہ پروردگار ہم نے اپنے نفس پر ظلم کیا ہے اب اگر تو معاف نہ کرے گا اور رحم نہ کرے گا تو ہم خسارہ اٹھانے والوں میں ہوجائیں گے۔

یعنی انہوں نے خود پر ظلم کیا ہے اور خدا سے بخشش طلب کی ہے۔ ایک اور جگہ قرآن میں ہے:

فَأَكَلَا مِنْهَا فَبَدَتْ لَهُمَا سَوْآتُهُمَا وَطَفِقَا يَخْصِفَانِ عَلَيْهِمَا مِن وَرَقِ الْجَنَّةِ وَعَصَىٰ آدَمُ رَبَّهُ فَغَوَىٰ ﴿طه: ١٢١﴾

تو ان دونوں نے درخت سے کھالیا اور ان کے لئے ان کا آ گا پیچھا ظاہر ہوگیا اور وہ اسے جنتّ کے پتوں سے چھپانے لگے اور آدم نے اپنے پروردگار کی نصیحت پر عمل نہ کیا تو راحت کے راستہ سے بے راہ ہوگئے۔

اس میں بھی آدم ع کا معصیت کرنا اور گمراہ ہونے کا ذکر ہے۔ ہم اس کا جواب یہ دیتے ہیں کہ اولا آدم ع کو درخت کے قریب جانے سے روکا گیا تھا، یہ امر مولوی یعنی واجب عمل نہیں تھا بلکہ امر ارشادی تھا جیسے ایک مستحب اور مندوب عمل جس پر عمل کرنا واجب نہیں تھا بلکہ بہتر تھا کہ اس پر عمل کیا جائے لیکن عمل نہ کرنا بھی گناہ نہیں تھا۔ اس کو ترک اولی بھی کہہ سکتے ہیں۔ اللہ کے تمام احکام واجب العمل نہیں ہیں، نیز یہ کہ آدم ع باغ یعنی جنت میں تھے، وہ ویسے بھی آزمائش اور سزا و جزا کی جگہ نہیں ہے نہ ہی وہاں گناہ انجام دیا جا سکتا ہے تو آدم ع کا وہاں گناہ سرزد کرنے کا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ جو اس کو گناہ مانتے ہیں ان کے مطابق آدم ع نے پھل کھایا جس سے ان کو بطور سزا جنت سے نکالا گیا، لیکن ان کا جنت سے باہر آنا تو پہلے سے طے تھا کیونکہ ان کو زمین کا خلیفہ بنایا جانا تھا نہ کہ جنت کا، اور اگر ان کی مغفرت کر دی گئی تو ان کو واپس جنت میں لوٹا دیا جانا چاہیئے تھا۔ خود ظلم کے بھی متعدد معانی ہیں جن میں یہ ہے کہ انسان کسی کا حق مارے یا کسی چیز کو غلط جگہ پر رکھے یا جلدی بازی کرنا یا نقصان پانا۔ آیت کے حساب سے آخری معنی درست معلوم ہوتا ہے کیونکہ آیت میں لفظ خاسرین یعنی خسارہ اٹھانے کا ذکر ہے۔ جو سہولتیں ان کو جنت میں میسر تھیں وہ اب نہیں رہیں گی اور زمین پر دشواریوں کا سامنا کرنا پڑے گا جو ایک کمی اور نقصان ہی ہے ان کے لیئے ان کی جلد بازی کے سبب۔ اب جہاں تک بات ہے کہ آدم ع نے معصیت کی، تو ہم کہتے ہیں کہ یہاں لفظ وَعَصَىٰ سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے مستحب عمل انجام نہیں دیا جس کا ان کو حکم ہوا تھا۔ معصیت کا معنی ہے حکم کی مخالفت کرنا، تو اس جہت سے یہ معصیت ضرور ہے مگر اس کا فرض ہونے پر کوئی ثبوت نہیں ملتا پس یہ مندوب (مستحب) عمل میں معصیت تھی نہ کہ مکتوب (واجب) عمل کی۔ لہذا یہ ترک اولی شمار کیا جائے گا۔ نیز یہاں لفظ ہے فَغَوَىٰ یعنی وہ گمراہ ہوئے کیونکہ غی متضاد ہے رشد کا، لیکن غی کا ایک اور معنی ناکام ہونا بھی ہے کیونکہ اگر آدم ع اس پر عمل کرتے جو مستحب کام ان سے کہا گیا تھا تو ان کو اس کا ثواب ضرور ملتا۔ پھر یہ کہ انہوں نے مغفرت اس لیئے طلب کی کیونکہ ایک نبی کے لیئے مستحب عمل کو چھوڑنا بھی نامناسب ہے اور اس کو یہ انجام دینا افضل تھا، جب انسان نبوت کے درجے پر ہو تو ایسی لغزش بھی توبہ اور مغفرت کی موجب ہے۔ لہذا آدم ع کا گناہ کرنا ثابت نہیں ہے ہوتا۔ شیخ طوسی نے بھی ذکر کیا ہے کہ ان کو نہی تنزیہی کے سبب درخت سے کھانے سے روکا گیا تھا نہ کہ حرام ہونے کے سبب (5)۔

پھر معاملہ ہے ابراہیم ع کا۔ آیات میں ہے:

فَلَمَّا جَنَّ عَلَيْهِ اللَّيْلُ رَأَىٰ كَوْكَبًا قَالَ هَـٰذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَا أُحِبُّ الْآفِلِينَ ﴿الأنعام: ٧٦﴾ فَلَمَّا رَأَى الْقَمَرَ بَازِغًا قَالَ هَـٰذَا رَبِّي فَلَمَّا أَفَلَ قَالَ لَئِن لَّمْ يَهْدِنِي رَبِّي لَأَكُونَنَّ مِنَ الْقَوْمِ الضَّالِّينَ ﴿الأنعام: ٧٧﴾ فَلَمَّا رَأَى الشَّمْسَ بَازِغَةً قَالَ هَـٰذَا رَبِّي هَـٰذَا أَكْبَرُ فَلَمَّا أَفَلَتْ قَالَ يَا قَوْمِ إِنِّي بَرِيءٌ مِّمَّا تُشْرِكُونَ ﴿الأنعام: ٧٨﴾ إِنِّي وَجَّهْتُ وَجْهِيَ لِلَّذِي فَطَرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ حَنِيفًا وَمَا أَنَا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿الأنعام: ٧٩﴾ وَحَاجَّهُ قَوْمُهُ قَالَ أَتُحَاجُّونِّي فِي اللَّـهِ وَقَدْ هَدَانِ وَلَا أَخَافُ مَا تُشْرِكُونَ بِهِ إِلَّا أَن يَشَاءَ رَبِّي شَيْئًا وَسِعَ رَبِّي كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا أَفَلَا تَتَذَكَّرُونَ ﴿الأنعام: ٨٠﴾

پس جب ان پر رات کی تاریکی چھائی اور انہوں نے ستارہ کو دیکھا تو کہا کہ کیا یہ میرا رب ہے . پھر جب وہ غروب ہوگیا تو انہوں نے کہا کہ میں ڈوب جانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔ پھر جب چاند کو چمکتا دیکھا تو کہا کہ پھر یہ رب ہوگا .پھر جب وہ بھی ڈوب گیا تو کہا کہ اگر پروردگار ہی ہدایت نہ دے گا تو میں گمراہوں میں ہوجاؤں گا۔ پھر جب چمکتے ہوئے سورج کو دیکھا تو کہا کہ پھر یہ خدا ہوگا کہ یہ زیادہ بڑا ہے لیکن جب وہ بھی غروب ہوگیا تو کہا کہ اے قوم میں تمہارے شِرک سے بری اور بیزار ہوں۔ میرا رخ تمام تر اس خدا کی طرف ہے جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا ہے اور میں باطل سے کنارہ کش ہوں اور مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔ اور جب ان کی قوم نے ان سے کٹ حجتی کی تو کہا کہ کیا مجھ سے خدا کے بارے میں بحث کررہے ہو جس نے مجھے ہدایت دے دی ہے اور میں تمہارے شریک کردہ خداؤں سے بالکل نہیں ڈرتا ہوں. مگر یہ کہ خود میرا خدا کوئی بات چاہے کہ اس کا علم ہر شے سے وسیع تر ہے کیا یہ بات تمہاری سمجھ میں نہیں آتی ہے۔

ان سے استدلال کیا جا سکتا ہے کہ ابراہیم ع مختلف خداؤں کے تصور سے نکل کر توحید کی طرف آئے تھے۔ یعنی پہلے ان کو تذبذب تھا کہ حقیقی خدا کونسا ہے؟ رفتہ رفتہ ایک ایک کو پرکھ کر ہی وہ خدائے یکتا تک پہنچے۔ لیکن ہم کہتے ہیں کہ معاملہ یوں نہیں ہے، کیونکہ ابراہیم ع کے دور میں Mesopotamia میں مختلف خداؤں کی عبادت کی جاتی تھی جن میں سیارے، چاند اور سورج شامل تھے، پس ابراہیم ع نے مشرکین کا رد کرنے کے لیئے ان کے خداؤں کو جدلاً مان کر ان کا رد کیا، کہ ان کا تغیر اور آنا جانا دلیل ہے کہ یہ متحرک و متغیر ہیں اور یہ حقیقی صانع و خالق نہیں ہو سکتے۔ بلکہ خود ان آیات میں ہی ہے کہ اللہ مجھے ہدایت دے چکا ہے، یعنی ان کو پتا ہے ان کا رب کون ہے جو ان کو ہدایت دے چکا ہے۔ بعد میں نمرود سے بھی وہ بحث کرتے ہیں تو سورج کو واپس پلٹانے کی ہی مثال دیتے ہیں۔ مزید ایک اور جگہ ابراہیم ع کے بارے میں:

وَإِذْ قَالَ إِبْرَاهِيمُ رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَىٰ قَالَ أَوَلَمْ تُؤْمِن قَالَ بَلَىٰ وَلَـٰكِن لِّيَطْمَئِنَّ قَلْبِي قَالَ فَخُذْ أَرْبَعَةً مِّنَ الطَّيْرِ فَصُرْهُنَّ إِلَيْكَ ثُمَّ اجْعَلْ عَلَىٰ كُلِّ جَبَلٍ مِّنْهُنَّ جُزْءًا ثُمَّ ادْعُهُنَّ يَأْتِينَكَ سَعْيًا وَاعْلَمْ أَنَّ اللَّـهَ عَزِيزٌ حَكِيمٌ ﴿البقرة: ٢٦٠﴾

اور اس موقع کو یاد کرو جب ابراہیم علیہ السّلام نے التجا کی کہ پروردگار مجھے یہ دکھا دے کہ تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے. ارشاد ہوا کیا تمہارا ایمان نہیں ہے. عرض کی ایمان توہے لیکن اطمینان چاہتا ہوں. ارشاد ہوا کہ چار طائر پکڑلو اور انہیں اپنے سے مانوس بناؤ پھر ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہر پہاڑ پر ایک حصّہ رکھ دو اور پھرآواز دو سب دوڑتے ہوئے آجائیں گے اور یاد رکھو کہ خدا صاحبِ عزّت بھی اور صاحبِ حکمت بھی۔

وہ کہتے ہیں کہ ابراہیم ع نے خدا سے مردے زندہ کرنے کا مطالبہ کیوں کیا۔ مگر آیت میں ہی جواب ہے کہ ان کو ایمان تھا، ابراہیم ع کا مقصد اللہ کے غیب پر ایمان کے ساتھ ساتھ مشاہداتی طور پر بھی اس کو دیکھنا تھا اور شاید اس کا ایک مطلب یہ ہو کہ وہ اپنی قوم کو بھی باور کرانا چاہتے تھے کہ معاد برحق ہے۔ ان کا پہلے ہی بعث اور معاد کو اعتقاد تھا لیکن اس واقعے نے اس کو مزید تقویت دی۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ ابراہیم ع نے دو مقامات پر بلکہ تین مقامات پر جھوٹ بولا ہے، اس میں سے ایک یہ آیت ہے:

فَنَظَرَ نَظْرَةً فِي النُّجُومِ ﴿الصافات: ٨٨﴾ فَقَالَ إِنِّي سَقِيمٌ ﴿الصافات: ٨٩﴾

پھر ابراہیم علیہ السّلام نے ستاروں میں وقت نظر سے کام لیا۔ اور کہا کہ میں بیمار ہوں۔

مگر اس وقت وہ بیمار نہیں تھے، اور دوسرے مقام پر بتوں کو توڑ کر انہوں نے کہا کہ یہ سب سے بڑے بت نے کیا ہے:

قَالَ بَلْ فَعَلَهُ كَبِيرُهُمْ هَـٰذَا فَاسْأَلُوهُمْ إِن كَانُوا يَنطِقُونَ ﴿الأنبياء: ٦٣﴾

ابراہیم علیہ السّلام نے کہا کہ یہ ان کے بڑے نے کیا ہے تم ان سے دریافت کرکے دیکھو اگر یہ بول سکیں۔

اور تیسرے مقام پر بادشاہ کے سامنے انہوں نے اپنی بیوی سارہ کو کہا کہ یہ میری بہن ہیں جبکہ وہ ان کی بیوی تھیں۔ بخاری میں ہے نبی ابراہیم ع نے ان تین بار جھوٹ بولا تھا (6)۔ مگر ہم کہتے ہیں کہ یہ جھوٹ نہیں تھے بلکہ توریہ اور تقیہ کے حکم میں آتا ہے، بلکہ اہل سنت کے یہاں بھی تین معاملات میں جھوٹ بولا جا سکتا ہے جن میں لوگوں میں اصلاح کرنا، ہمسر کو راضی کرنا اور جنگ میں حربہ کے طور پر جھوٹ بولنا شامل ہے جو جھوٹ نہیں سمجھا جائے گا (7)۔ ان کا کہنا کہ میں بیمار ہوں یا کہنا کہ ان بتوں کے بڑے نے یہ کیا ہے یا سارہ ع کو اپنی بہن کہنا جیسا کہ روایات میں ہے جھوٹ نہیں تھا جیسا کہ ائمہ اہل بیت ع نے بیان کیا ہے (8)۔ ابراہیم ع اپنے بدن میں بیمار یا سقیم نہیں تھے بلکہ دل میں سقیم تھے کیونکہ وہ مغموم تھے، اور سارہ کو بہن کہنے کا مقصد یہ تھا کہ وہ ان کی چچازاد بہن ہی تھیں۔ ائمہ ع کی احادیث میں ہے کہ ابراہیم ع نے کہا کہ یہ ان بتوں کے بڑے نے کیا ہے اس سے ان کی مراد اصلاح کرنا تھا تو یہ عمل جائز ہے (9) جیسا کہ اہل سنت احادیث میں بھی ہے۔ بلکہ یہ کہنا بعید نہیں کہ ان کے بڑوں سے مراد وہ خود ہی تھے کیونکہ ان کی مراد مقام و منزلت میں بڑا ہونا تھا اور نبی ہمیشہ اپنی قوم سے افضل ہوتا ہے، یعنی اس قوم کے بڑے نے یہ کام انجام دیا ہے۔ لہذا ابراہیم ع پر یہ سب بہتان بے بنیاد ہیں جو ان آیات کی غلط فہمی کے سبب ہیں۔

لوط ع کے متعلق

لوط ع نے اپنی قوم سے فرمایا جب وہ ان کے مہمانوں کے پیچھے آئے:

...قَالَ يَا قَوْمِ هَـٰؤُلَاءِ بَنَاتِي هُنَّ أَطْهَرُ لَكُمْ... ﴿هود: ٧٨﴾

لوط ع نے فرمایا: اے میری قوم، یہ میری بیٹیاں ہیں، وہ تمہارے لیئے زیادہ پاک ہیں۔

قَالَ هَـٰؤُلَاءِ بَنَاتِي إِن كُنتُمْ فَاعِلِينَ ﴿الحجر: ٧١﴾

لوط ع نے فرمایا: یہ میری بیٹیاں ہیں اگر تمہیں کچھ کرنا ہے۔

اس پر اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ لوط ع ایسی فاسق قوم کو اپنی بیٹیاں کیسے دے سکتے ہیں، یہ کیسے جائز ہوگا شریعت میں، بعض کا اشکال تو یہاں تک ہے کہ معاذ اللہ وہ بغیر نکاح کے اپنی بیٹیاں ان کے حوالے کر رہے تھے۔ لیکن ایسا نہیں ہے۔ ہم کہتے ہیں کہ یہاں بیٹیوں سے مراد ان کی قوم کی بیٹیاں ہیں کیونکہ نبی اپنی قوم میں تمام لوگوں پر ولایت رکھتا ہے۔ اور بفرض محال اگر اپنی ذاتی بیٹیاں بھی مراد ہوں تب بھی وہ بغیر نکاح کے نہیں دے سکتے قطعاً تو اگر نکاح میں بھی دیتے تو کتنی بیٹیاں تھیں ان کی جو وہ پوری قوم کو دیتے؟ کیا ان کے پاس ہزاروں بیٹیاں تھیں؟ حالانکہ روایات میں اور بائبل کی کتاب پیدائش کے مطابق ان کی دو ہی بیٹیاں تھیں تو یہ پوری قوم کے لیئے کیسے ہونگی؟ یہاں لفظ بنات آیا ہے جو کہ تین یا اس سے زیادہ کے لیئے ہے تو ہم کہتے ہیں کہ یہاں مراد قوم کی بیٹیاں ہیں جن سے وہ چاہتے ہیں کہ یہ لوگ نکاح کریں اور اپنے ان افعال قبیحہ و رذیلہ کو ترک کریں۔

یونس ع کے متعلق

وَذَا النُّونِ إِذ ذَّهَبَ مُغَاضِبًا فَظَنَّ أَن لَّن نَّقْدِرَ عَلَيْهِ فَنَادَىٰ فِي الظُّلُمَاتِ أَن لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا أَنتَ سُبْحَانَكَ إِنِّي كُنتُ مِنَ الظَّالِمِينَ ﴿الأنبياء: ٨٧﴾

اور یونس علیہ السّلام کو یاد کرو کہ جب وہ غصّہ میں آکر چلے اور یہ خیال کیا کہ ہم ان پر روزی تنگ نہ کریں گے اور پھر تاریکیوں میں جاکر آواز دی کہ پروردگار تیرے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے تو پاک و بے نیاز ہے اور میں اپنے نفس پر ظلم کرنے والوں میں سے تھا۔

اس آیت پر اشکال ہے کہ ذو النون یعنی یونس ع غصے میں قوم کو چھوڑ گئے، لیکن یہاں یہ نہیں لکھا کہ ان کا غصہ اللہ پر تھا بلکہ ظاہر یہی ہے کہ یہ قوم کی نافرمانیوں پر تھا (10)۔ یہاں پر یونس ع کے متعلق یہ جو ذکر ہے کہ ان کا ظن تھا کہ اللہ ان پر قادر نہیں ہیں، اس میں پہلا امر یہ ہے کہ ظن کا لفظ کبھی یقین کے اعتبار سے بھی استعمال ہوا ہے جیسے قرآن میں ہے الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو رَبِّهِمْ وَأَنَّهُمْ إِلَيْهِ رَاجِعُونَ ﴿البقرة: ٤٦﴾ وہ لوگ جن کا خیال ہے کہ وہ اپنے رب سے ملیں گے اور اسکی طرف لوٹیں گے، اور اس طرح سے ظن کا استعمال مختلف آیات میں ہے (11)۔ اور جہاں تک بات ہے کہ ان کو یقین تھا کہ اللہ ان پر قادر نہیں آئے گا تو یہاں مراد ہے کہ وہ ان کی روزی تنگ نہیں کرے گا جیسا کہ آیت میں ہے وَأَمَّا إِذَا مَا ابْتَلَاهُ فَقَدَرَ عَلَيْهِ رِزْقَهُ فَيَقُولُ رَبِّي أَهَانَنِ ﴿الفجر: ١٦﴾ اور جب وہ اس کو آزماتا ہے اور اس کا رزق تنگ کرتا ہے تو انسان کہتا ہے میرے رب نے مجھے رسوا کیا ہے۔ اگر یونس ع کا خیال یہ ہوتا کہ اللہ ان پر قادر ہی نہیں تو یہ کفر ہوتا، مگر ان کا گمان یہ تھا کہ ان کے مقام کے سبب ان کے رزق میں کمی نہیں کرے گا جیسا کہ امام رضا ع نے بھی بیان کیا ہے مامون سے گفتگو کے دوران، اور اکثر مفسرین کا یہی قول ہے (12)۔ پھر سوال ہے کہ اگر یونس ع نے کچھ غلط نہیں کیا تو خود کو ظالموں میں سے کیوں کہا؟ تو اس کا جواب یہی ہے کہ یونس ع نے بھی جلد بازی کی تھی جیسا کہ ظلم کا ایک معنی بیان ہوا ہے، کیونکہ اللہ نے قوم یونس ع پر سے عذاب ٹال دیا تھا، اگر یونس ع جلد بازی نہ کرتے تو نہ وہ مچھلی میں جاتے اور ان کی قوم توبہ بھی کرلیتی ہے جیسا کہ قرآن میں ہے:

فَلَوْلَا كَانَتْ قَرْيَةٌ آمَنَتْ فَنَفَعَهَا إِيمَانُهَا إِلَّا قَوْمَ يُونُسَ لَمَّا آمَنُوا كَشَفْنَا عَنْهُمْ عَذَابَ الْخِزْيِ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَمَتَّعْنَاهُمْ إِلَىٰ حِينٍ ﴿يونس: ٩٨﴾

پس کوئی بستی ایسی کیوں نہیں ہے جو ایمان لے آئے اور اس کا ایمان اسے فائدہ پہنچائے علاوہ قوم یونس کے کہ جب وہ ایمان لے آئے تو ہم نے ان سے زندگانی دنیا میں رسوائی کا عذاب دفع کردیا اور انہیں ایک مّدت تک چین سے رہنے دیا۔

یوسف ع کے بارے میں شبہات

یوسف ع اور زلیخا کے واقعے پہ آیت ہے:

وَلَقَدْ هَمَّتْ بِهِ وَهَمَّ بِهَا لَوْلَا أَن رَّأَىٰ بُرْهَانَ رَبِّهِ كَذَٰلِكَ لِنَصْرِفَ عَنْهُ السُّوءَ وَالْفَحْشَاءَ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُخْلَصِينَ ﴿يوسف: ٢٤﴾

اور یقینا اس عورت نے ان سے برائی کا ارادہ کیا اور وہ بھی ارادہ کربیٹھتے اگر اپنے رب کی دلیل نہ دیکھ لیتے یہ تو ہم نے اس طرح کا انتظام کیا کہ ان سے برائی اور بدکاری کا رخ موڑ دیں کہ وہ ہمارے مخلص بندوں میں سے تھے۔

پس یوسف ع معصوم تھے، اگر وہ معصوم نہ ہوتے تو اس برائی کا ارادہ کرتے جس کا ارادہ زلیخا کا تھا۔ بلکہ زلیخا نے وہ برا عمل کرنے کا ارادہ کیا مگر یوسف ع نے اس کو نہ کرنے کا ارادہ کیا۔ اور اللہ نے ان کو عصمت کے ذریعہ اس سے محفوظ رکھا۔ بلکہ یوسف ع کے ارادے کرنے سے مراد سیف مرتضی نے بیان کیا ہے کہ یہاں مراد اس کو مارنا یا اس کو خود سے دور کرنا تھا (13) پھر آیت میں ملتا ہے کہ یوسف ع نے اپنے بھائیوں کو چور کہا:

فَلَمَّا جَهَّزَهُم بِجَهَازِهِمْ جَعَلَ السِّقَايَةَ فِي رَحْلِ أَخِيهِ ثُمَّ أَذَّنَ مُؤَذِّنٌ أَيَّتُهَا الْعِيرُ إِنَّكُمْ لَسَارِقُونَ ﴿يوسف: ٧٠﴾ قَالُوا وَأَقْبَلُوا عَلَيْهِم مَّاذَا تَفْقِدُونَ ﴿يوسف: ٧١﴾ قَالُوا نَفْقِدُ صُوَاعَ الْمَلِكِ وَلِمَن جَاءَ بِهِ حِمْلُ بَعِيرٍ وَأَنَا بِهِ زَعِيمٌ ﴿يوسف: ٧٢﴾

اس کے بعد جب یوسف نے ان کا سامان تیار کرادیا تو پیالہ کو اپنے بھائی کے سامان میں رکھوادیا اس کے بعد منادی نے آواز دی کہ قافلے والو تم سب چور ہو۔ ان لوگوں نے مڑ کر دیکھا اور کہا کہ آخر تمہاری کیا چیز گم ہوگئی ہے۔ ملازمین نے کہا کہ بادشاہ کا پیالہ نہیں مل رہا ہے اور جو اسے لے کر آئے گا اسے ایک اونٹ کا بار غلہ انعام ملے گا اور میں اس کا ذمہ دار ہوں

یوسف ع نے یہ کیوں کہا، اس کا جواب ائمہ ع کی احادیث میں مفصلا موجود ہے (14)۔ یوسف ع نے یہ کہا کہ بادشاہ کا سامان گم گیا ہے، یہ نہیں کہا کہ تم نے سامان چوری کیا ہے۔ اور ان کو چور کہنے سے مراد یہ ہے کہ انہوں نے یوسف ع کو ان کے والد یعقوب ع سے چوری کرلیا تھا۔

موسی ع اور خطا؟

وَدَخَلَ الْمَدِينَةَ عَلَىٰ حِينِ غَفْلَةٍ مِّنْ أَهْلِهَا فَوَجَدَ فِيهَا رَجُلَيْنِ يَقْتَتِلَانِ هَـٰذَا مِن شِيعَتِهِ وَهَـٰذَا مِنْ عَدُوِّهِ فَاسْتَغَاثَهُ الَّذِي مِن شِيعَتِهِ عَلَى الَّذِي مِنْ عَدُوِّهِ فَوَكَزَهُ مُوسَىٰ فَقَضَىٰ عَلَيْهِ قَالَ هَـٰذَا مِنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ إِنَّهُ عَدُوٌّ مُّضِلٌّ مُّبِينٌ ﴿القصص: ١٥﴾ قَالَ رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي فَغَفَرَ لَهُ إِنَّهُ هُوَ الْغَفُورُ الرَّحِيمُ ﴿القصص: ١٦﴾

اور موسٰی شہر میں اس وقت داخل ہوئے جب لوگ غفلت کی نیند میں تھے تو انہوں نے دو آدمیوں کو لڑتے ہوئے دیکھا ایک ان کے شیعوں میں سے تھا اور ایک دشمنوں میں سے تو جو ان کے شیعوں میں سے تھا اس نے دشمن کے ظلم کی فریاد کی تو موسٰی نے اسے ایک گھونسہ مار کر اس کی زندگی کا فیصلہ کردیا اور کہا کہ یہ یقینا شیطان کے عمل سے تھا اور یقینا شیطان دشمن اور کھنَا ہوا گمراہ کرنے والا ہے۔ موسٰی نے کہا کہ پروردگار میں نے اپنے نفس کے لئے مصیبت مول لے لی لہذا مجھ معاف کردے تو پروردگار نے معاف کردیا کہ وہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔

اشکال یہ کیا جاتا ہے کہ موسی ع نے اس فرد کا قتل کرکے غلط کیا اور پھر اس کو شیطانی عمل کہہ کر اقرار بھی کیا اپنی غلطی کا۔ اس کا جواب یہ ہے کہ موسی ع نے اپنے فعل کو شیطان کا عمل نہیں کہا بلکہ اس جھگڑے اور لڑائی کو کہا تھا جو ان دو افراد کے درمیان ہو رہی تھی۔ موسی ع نے تو مظلوم کی مدد کی تھی، جو کہ گناہ یا جرم نہیں ہے۔ زیادہ سے زیادہ ان کے عمل کو نادانستہ طور پر قتل کرنا کہا جا سکتا کیونکہ ان کی قصد اپنے ماننے والے کی نصرت کرنا تھا۔ یہاں پھر موسی ع نے کہا کہ میں نے خود پر ظلم کیا، یعنی خود کو نقصان میں لایا ہوں کیونکہ اب فرعون اور اس کے لوگ میرا پیچھا کریں گے کیونکہ ان کا ایک فرد قتل ہوگیا ہے۔ اور جہاں تک مغفرت طلب کرنے کی بات ہے، تو مغفرت کا ایک مطلب کسی کو ڈھک دینا یا دیکھ بھال کرنا یا حفاظت کرنا بھی ہے، پس موسی ع نے خدا سے طلب کیا کہ وہ ان کے اس پر فعل کو ڈھک دیں اور ان کی حفاظت کریں تاکہ فرعونی ان کو کوئی نقصان نہ پہنچا سکیں۔ اللہ نے ان کو غم سے نجات بھی دی جب انہوں نے اس فرد کا قتل کیا تھا، ان کی سرزنش نہیں کی اس پر:

إِذْ تَمْشِي أُخْتُكَ فَتَقُولُ هَلْ أَدُلُّكُمْ عَلَىٰ مَن يَكْفُلُهُ فَرَجَعْنَاكَ إِلَىٰ أُمِّكَ كَيْ تَقَرَّ عَيْنُهَا وَلَا تَحْزَنَ وَقَتَلْتَ نَفْسًا فَنَجَّيْنَاكَ مِنَ الْغَمِّ وَفَتَنَّاكَ فُتُونًا فَلَبِثْتَ سِنِينَ فِي أَهْلِ مَدْيَنَ ثُمَّ جِئْتَ عَلَىٰ قَدَرٍ يَا مُوسَىٰ ﴿طه: ٤٠﴾

اس وقت کو یاد کرو جب تمہاری بہن جارہی تھیں کہ فرعون سے کہیں کہ کیا میں کسی ایسے کا پتہ بتاؤں جو اس کی کفالت کرسکے اور اس طرح ہم نے تم کو تمہاری ماں کی طرف پلٹا دیا تاکہ ان کی آنکھیں ٹھنڈی ہوجائیں اور وہ رنجیدہ نہ ہوں اور تم نے ایک شخص کو قتل کردیا تو ہم نے تمہیں غم سے نجات دے دی اور تمہارا باقاعدہ امتحان لے لیا پھر تم اہل مدین میں کئی برس تک رہے اس کے بعد تم ایک منزل پر آگئے اے موسٰی۔

پھر موسی ع نے یہ بھی کہا ہے کہ:

وَلَهُمْ عَلَيَّ ذَنبٌ فَأَخَافُ أَن يَقْتُلُونِ ﴿الشعراء: ١٤﴾

اور ان (فرعونیوں) کا مجھ پر ایک جرم بھی ہے تو مجھے ڈر ہے کہ وہ مجھے قتل کردیں گے۔

یہاں لفظ ذنب آیا ہے لیکن ذنب کی بھی مراد کسی چیز کی عاقبت ہے اور ظاہر ہے موسی ع نے جو کیا تھا اس کا بدلہ تو فرعون نے لینا ہی تھا۔ اور فرعون نے موسی ع سے آگے کہا:

وَفَعَلْتَ فَعْلَتَكَ الَّتِي فَعَلْتَ وَأَنتَ مِنَ الْكَافِرِينَ ﴿الشعراء: ١٩﴾

اور تو نے اپنی حرکت بھی کی تھی جو تو نے کی تھی اور تو ناشکروں میں سے ہے۔

اس پر موسی ع کا جواب ہے:

قَالَ فَعَلْتُهَا إِذًا وَأَنَا مِنَ الضَّالِّينَ ﴿الشعراء: ٢٠﴾

موسی ع نے فرمایا: میں نے یہ تب کیا تھا جب میں گمراہوں میں سے تھا۔

اس کے بعد موسی ع یہ بھی کہتے ہیں کہ اللہ نے مجھے رسول بنایا، مگر ضروری نہیں یہاں ضالین میں سے ہونے سے مراد ان کا گمراہ ہونا ہے بلکہ اس سے مراد گمنام ہونا بھی ہو سکتا ہے جس کے بعد ان کو اللہ نے منتخب کرکے لوگوں کی ہدایت کے لیئے مقرر کیا اور لوگوں کو ان سے شناسائی ہوئی جس کے بعد وہ گمنام نہیں رہے۔ اور شیطان نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ خدا کے خالص کردہ بندوں پر کوئی تسلط نہیں رکھتا جیسا کہ متعدد آیات میں آیا ہے (15)، اور یقینا موسی ع بھی ان افراد میں سے ہیں جو شیطان کے تسلط سے محفوظ ہیں جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ مُوسَىٰ إِنَّهُ كَانَ مُخْلَصًا وَكَانَ رَسُولًا نَّبِيًّا ﴿مريم: ٥١﴾

اور اپنی کتاب میں موسٰی علیہ السّلام کا بھی تذکرہ کرو کہ وہ میرے مخلص بندے اور رسول و نبی تھے۔

پس ان پر شیطان قادر نہیں آ سکتا، لہذا ان سے گناہ سرزد ہونا ممکن نہیں ہے ان کی عصمت کے سبب۔

داود ع کا معاملہ

داود ع کے متعلق اللہ نے بیان کیا ہے:

قَالَ لَقَدْ ظَلَمَكَ بِسُؤَالِ نَعْجَتِكَ إِلَىٰ نِعَاجِهِ وَإِنَّ كَثِيرًا مِّنَ الْخُلَطَاءِ لَيَبْغِي بَعْضُهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ إِلَّا الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ وَقَلِيلٌ مَّا هُمْ وَظَنَّ دَاوُودُ أَنَّمَا فَتَنَّاهُ فَاسْتَغْفَرَ رَبَّهُ وَخَرَّ رَاكِعًا وَأَنَابَ ﴿ص: ٢٤﴾

داؤد علیہ السّلام نے کہا کہ اس نے تمہاری دنبی کا سوال کرکے تم پر ظلم کیاہے اور بہت سے شرکائ ایسے ہی ہیں کہ ان میں سے ایک دوسرے پر ظلم کرتا ہے علاوہ ان لوگوں کے جو صاحبان ایمان و عمل صالح ہیں اور وہ بہت کم ہیں۔ اور داؤد علیہ السّلام نے یہ خیال کیا کہ ہم نے ان کا امتحان لیا ہے لہٰذا انہوں نے اپنے رب سے استغفار کیا اور سجدہ میں گر پڑے اور ہماری طرف سراپا توجہ بن گئے۔

یہاں داود ع سے ترک اولی ہوا کیونکہ داود ع نے جلد بازی کی، ان کو دونوں افراد کا دعوی سن کر اور مدعی سے دلیل طلب کرکے فیصلہ کرنا چاہیئے تھا الہی احکام کے مطابق جیسا کہ سید مرتضی اور شیخ مفید نے بیان کیا ہے (16) کیونکہ داود ع کو اللہ نے خلیفہ بنایا تھا تاکہ وہ لوگوں میں حق سے فیصلہ کریں جیسا کہ آیت میں ہے:

يَا دَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاكَ خَلِيفَةً فِي الْأَرْضِ فَاحْكُم بَيْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلَا تَتَّبِعِ الْهَوَىٰ فَيُضِلَّكَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ إِنَّ الَّذِينَ يَضِلُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّـهِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ بِمَا نَسُوا يَوْمَ الْحِسَابِ ﴿ص: ٢٦﴾

اے داؤد علیہ السّلام ہم نے تم کو زمین میں اپنا جانشین بنایا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق کے ساتھ فیصلہ کرو اور خواہشات کا اتباع نہ کرو کہ وہ راسِ خدا سے منحرف کردیں بیشک جو لوگ راہ خدا سے بھٹک جاتے ہیں ان کے لئے شدید عذاب ہے کہ انہوں نے روزِ حساب کو یکسر نظرانداز کردیا ہے۔

نبی کریم ص کے بارے میں شبہات

قرآن میں چند آیات میں جن میں بظاہر نبی اکرم ص کو اللہ کی جانب سے تنبیہ کی گئی ہے (17) اور بعض آیات کے ظاہری مفہوم سے نبی ص کے گناہ کا ذکر ہے۔ ہم ان آیات کا ذکر کرکے ان کی وضاحت کریں گے۔ سورہ الضحی میں آیا ہے:

وَوَجَدَكَ ضَالًّا فَهَدَىٰ ﴿الضحى: ٧﴾

اور کیا تم کو گم گشتہ پاکر منزل تک نہیں پہنچایا ہے۔

یہاں لفظ ضال آیا ہے جس کا ظاہری معنی بھٹکا ہوا یا گمراہ ہوتا ہے، لیکن ضال کا ایک معنی گمنام بھی ہوتا ہے، تو اس آیت کا ترجمہ یوں کیا جا سکتا ہے کہ اس نے آپ کو گمنام پایا تو لوگوں کو ہدایت دی (آپ کی طرف)۔ اس کی ایک قراءت یہ بھی ہے کہ وَوَجَدَكَ ضَالّ فَهُدِيَ یعنی آپ کو گمراہ فرد نے پایا تو ہدایت پا گیا، جیسا کہ سیاری کی کتاب القراءات میں ہے اور تفسیر قرطبی وغیرہ میں ہے (18)، بلکہ خود قرآن نے نبی ص کے نعوذ باللہ بھٹکے ہونے کی نفی کی ہے:

مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَىٰ ﴿النجم: ٢﴾

تمہارا ساتھی نہ گمراہ ہوا ہے اور نہ بہکا۔

پھر یہ کہ نبی ص کو استغفار کرنے کا کہا گیا ہے کچھ آیات میں:

فَاصْبِرْ إِنَّ وَعْدَ اللَّـهِ حَقٌّ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ بِالْعَشِيِّ وَالْإِبْكَارِ ﴿غافر: ٥٥﴾

لہٰذا آپ صبر کریں کہ اللہ کا وعدہ یقینا برحق ہے اور اپنے حق میں استغفار کرتے رہیں اور صبح و شام اپنے پروردگار کی حمد کی تسبیح کرتے رہیں۔

فَاعْلَمْ أَنَّهُ لَا إِلَـٰهَ إِلَّا اللَّـهُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنبِكَ وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَاللَّـهُ يَعْلَمُ مُتَقَلَّبَكُمْ وَمَثْوَاكُمْ ﴿محمد: ١٩﴾

تو یہ سمجھ لو کہ اللہ کے علاوہ کوئی خدا نہیں ہے اور اپنے اور ایماندار مردوں اور عورتوں کے لئے استغفار کرتے رہو کہ اللہ تمہارے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے سے خوب باخبر ہے۔

لِّيَغْفِرَ لَكَ اللَّـهُ مَا تَقَدَّمَ مِن ذَنبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ وَيُتِمَّ نِعْمَتَهُ عَلَيْكَ وَيَهْدِيَكَ صِرَاطًا مُّسْتَقِيمًا ﴿الفتح: ٢﴾

تاکہ خدا آپ کے اگلے پچھلے تمام الزامات کو ختم کردے اور آپ پر اپنی نعمت کو تمام کردے اور آپ کو سیدھے راستہ کی ہدایت دے دے۔

فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْهُ إِنَّهُ كَانَ تَوَّابًا ﴿النصر: ٣﴾

تو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کریں اور اس سے استغفار کریں کہ وہ بہت زیادہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

سورہ النصر یا سورہ الفتح کی آیات صلح حدیبیہ کے موقع پر نازل ہوئی تھیں جیسا کہ مفسرین نے ذکر کیا ہے۔ یہ کہنا عجیب ہوگیا کہ اللہ نے نبی ص کو کھلی فتح عطاء کی ہے، اور پھر اللہ کہے کہ اس سے وہ آپ کے گناہوں کو معاف کردے گا کیونکہ لفظ ذنب آیا ہے۔ بلکہ غفر کا ایک مطلب ڈھک دینا یا حفاظت کرنا ہے اور ذنب کا تحت اللفظی مطلب دُم ہے، اور اس کا مطلب کسی چیز کی عاقبت یا انجام کا ہے کیونکہ وہ آخر میں آتا ہے۔ پس یہاں ذنب کا مطلب یہ ہے کہ اس صلح کے نتیجے میں جتنے بھی منفی نتائج تھے جو ہوئے یا ہونگے اللہ ان میں آپ کی حفاظت کرے گا، اور یہ بات زیادہ بہتر سمجھ آتی ہے سیاق کے حساب سے۔ سورہ النصر کی آیت میں استغفار کرنے سے مراد امت کے لیئے استغفار کرنا ہے کیونکہ نبی ص گناہ نہیں کرتے۔ پھر سورہ عبس کی آیات ہیں:

عَبَسَ وَتَوَلَّىٰ ﴿عبس: ١﴾ أَن جَاءَهُ الْأَعْمَىٰ ﴿عبس: ٢﴾ وَمَا يُدْرِيكَ لَعَلَّهُ يَزَّكَّىٰ ﴿عبس: ٣﴾ أَوْ يَذَّكَّرُ فَتَنفَعَهُ الذِّكْرَىٰ ﴿عبس: ٤﴾ أَمَّا مَنِ اسْتَغْنَىٰ ﴿عبس: ٥﴾ فَأَنتَ لَهُ تَصَدَّىٰ ﴿عبس: ٦﴾ وَمَا عَلَيْكَ أَلَّا يَزَّكَّىٰ ﴿عبس: ٧﴾

اس نے منہ بسور لیا اور پیٹھ پھیر لی۔ کہ ان کے پاس ایک نابینا آگیا۔ اور تمھیں کیا معلوم شاید وہ پاکیزہ نفس ہوجاتا۔ یا نصیحت حاصل کرلیتا تو وہ نصیحت اس کے کام آجاتی۔ لیکن جو مستغنی بن بیٹھا ہے۔ آپ اس کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ حالانکہ آپ پر کوئی ذمہ داری نہیں ہے اگر وہ پاکیزہ نہ بھی بنے۔

ان آیات کی تفسیر میں اہل سنت نے بیان کیا ہے کہ نبی ص کے پاس ایک نابینا صحابی آئے جن کا نام عبد اللہ بن ابی مکتوم تھا اور وہ نبی ص کے مؤذن بھی تھے، اس دوران نبی ص قریش کے قائدین سے بات کر رہے تھے جن میں امیہ بن خلف، ابی بن خلف، أبو جہل وغیرہ تھے۔ تو نبی ص نے ابن ام مکتوم سے منہ پھیر لیا جس موقع پر یہ آیات نازل ہوئیں۔ اس پر اہل سنت کے کبار مفسرین نے لکھا ہے اور فخر الدین رازی نے اجماع کا بھی دعوی کیا ہے (19)۔ کتب شیعہ میں یہ آیات نبی ص کے لیئے نہیں بلکہ بنی امیہ کے ایک فرد کے لیئے نازل ہوئی تھیں جس نے منہ پھیر لیا تھا جب نبی ص کے پاس ابن ام مکتوم آئے تھے (20)، بعض روایات میں عثمان بن عفان کا ذکر آیا ہے۔ پس یہ مذمت نبی ص کے لیئے نہیں بلکہ کسی اور فرد کے لیئے نازل ہوئی تھی، نبی ص ایسا کیسے کر سکتے ہیں جبکہ وہ قرآن کے مطابق عظیم اخلاق پر فائز ہیں، اللہ کہتا ہے: وَإِنَّكَ لَعَلَىٰ خُلُقٍ عَظِيمٍ ﴿القلم: ٤﴾ اور بیشک آپ عظیم اخلاق پر فائز ہیں۔ پھر ایک اور شبہہ اس آیت کو لیکر ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿التحريم: ١﴾ قَدْ فَرَضَ اللَّـهُ لَكُمْ تَحِلَّةَ أَيْمَانِكُمْ وَاللَّـهُ مَوْلَاكُمْ وَهُوَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ﴿التحريم: ٢﴾ وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا فَلَمَّا نَبَّأَتْ بِهِ وَأَظْهَرَهُ اللَّـهُ عَلَيْهِ عَرَّفَ بَعْضَهُ وَأَعْرَضَ عَن بَعْضٍ فَلَمَّا نَبَّأَهَا بِهِ قَالَتْ مَنْ أَنبَأَكَ هَـٰذَا قَالَ نَبَّأَنِيَ الْعَلِيمُ الْخَبِيرُ ﴿التحريم: ٣﴾

پیغمبر آپ اس شے کو کیوں ترک کر رہے ہیں جس کو خدا نے آپ کے لئے حلال کیا ہے کیا آپ ازواج کی مرضی کے خواہشمند ہیں اور اللہ بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔ خدا نے فرض قرار دیا ہے کہ اپنی قسم کو کفارہ دے کر ختم کردیجئے اور اللہ آپ کا مولا ہے اور وہ ہر چیز کا جاننے والا اور صاحبِ حکمت ہے۔ اور جب نبی نے اپنی بعض ازواج سے راز کی بات بتائی اور اس نے دوسری کو باخبر کردیا اور خدا نے نبی پر ظاہر کردیا تو نبی نے بعض باتوں کو اسے بتایا اور بعض سے اعراض کیا پھر جب اسے باخبر کیا تو اس نے پوچھا کہ آپ کو کس نے بتایا ہے تو آپ نے کہا کہ خدائے علیم و خبیر نے۔

اس میں مختلف تفاسیر ہیں۔ ایک یہ کہ نبی ص اپنی ہبہ کردہ کنیز ماریہ کے ساتھ تھے تو حفصہ نے آکر ان کو دیکھ لیا، اس پر نبی ص نے حلف اٹھایا کہ اس سے دوبارہ نہیں ملیں گے۔ ایک تفسیر میں ہے کہ زینب بنت جحش زوجہ نبی ص آپ کے لیئے شہد کا مشروب بناتی تھیں تو جب بھی وہ حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ کے پاس جاتے وہ کہتیں کہ ان کے منہ سے بدبو آ رہی ہے جس پر نبی ص نے حلف اٹھایا کہ وہ اب یہ مشروب نہیں نوش فرمائیں گے۔ ان دونوں میں سے کوئی بھی تفسیر مانی جائے تو یہاں نبی ص نے کوئی گناہ نہیں کیا بلکہ تنزہیاً خود کو ایک حلال کام سے دور رکھا، ایسا نہیں کہ انہوں نے حلال کو حرام میں بدل دیا نعوذ باللہ، اور اس پوری سورہ التحریم میں ازواج کی مذمت بیان ہوئی ہے اگر ہم ان آیات کا سیاق دیکھیں، اس سے نبی ص کی عصمت کی نفی نہیں ہوتی۔ اس کے علاوہ زینب بنت جحش اور نبی ص کے متعلق جو مروی ہے اس پر بھی معترضین کا اعتراض ہے:

وَإِذْ تَقُولُ لِلَّذِي أَنْعَمَ اللَّـهُ عَلَيْهِ وَأَنْعَمْتَ عَلَيْهِ أَمْسِكْ عَلَيْكَ زَوْجَكَ وَاتَّقِ اللَّـهَ وَتُخْفِي فِي نَفْسِكَ مَا اللَّـهُ مُبْدِيهِ وَتَخْشَى النَّاسَ وَاللَّـهُ أَحَقُّ أَن تَخْشَاهُ فَلَمَّا قَضَىٰ زَيْدٌ مِّنْهَا وَطَرًا زَوَّجْنَاكَهَا لِكَيْ لَا يَكُونَ عَلَى الْمُؤْمِنِينَ حَرَجٌ فِي أَزْوَاجِ أَدْعِيَائِهِمْ إِذَا قَضَوْا مِنْهُنَّ وَطَرًا وَكَانَ أَمْرُ اللَّـهِ مَفْعُولًا ﴿الأحزاب: ٣٧﴾

اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اس شخص سے جس پر خدا نے بھی نعمت نازل کی اور تم نے بھی احسان کیا یہ کہہ رہے تھے کہ اپنی زوجہ کو روک کر رکھو اور اللہ سے ڈرو اور تم اپنے دل میں اس بات کو چھپائے ہوئے تھے جسے خدا ظاہر کرنے والا تھا اور تمہیں لوگوں کے طعنوں کا خوف تھا حالانکہ خدا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرا جائے اس کے بعد جب زید نے اپنی حاجت پوری کرلی تو ہم نے اس عورت کا عقد تم سے کردیا تاکہ مومنین کے لئے منہ بولے بیٹوں کی بیویوں سے عقد کرنے میں کوئی حرج نہ رہے جب وہ لوگ اپنی ضرورت پوری کر چکیں اوراللہ کا حکم بہر حال نافذ ہوکر رہتا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ نبی ص نے اپنے لے پالک بیٹے زید بن حارثہ کی بیوی سے کیسے شادی کرلی، اور یہ اعتراض نیا نہیں کیونکہ اس دور کے منافقین کا بھی تھا۔ ہم کہتے ہیں کہ وہ ان کی نامحرم تھی اور اسلام میں محرمیت کسی کو گود لینے سے نہیں قائم ہوتی۔ اس متعلق ایک جھوٹا قصہ بھی مروی ہے جس میں نبی ص جب زید کے گھر آئے تو ان کو زینب نظر آئیں اور ان میں شادی کی خواہش آئی جو انہوں نے چپھائی، خود اہل سنت اصول حدیث پر یہ روایت باطل ہے۔ بلکہ خود اس آیت میں نبی ص نے زید سے کہا کہ اپنی بیوی کو اپنے پاس رکھو یعنی طلاق نہ دو، اور وہ بات جو نبی ص نے مخفی رکھی وہ یہ تھی کہ اللہ نے آپ ص کو ان کی بیویوں کے نام بتا دیئے تھے جن میں حضرت زینب بنت جحش شامل تھیں، مگر وہ یہ بیان نہیں کرنا چاہتے تھے اور انہوں نے اس کو ظاہر نہیں کیا جب تک زید کی زینب سے طلاق نہیں ہوگئی۔ ایک اور آیت میں وہ کہتے ہیں کہ نبی ص کو مزید شادیاں کرنے سے روکا گیا تھا:

لَّا يَحِلُّ لَكَ النِّسَاءُ مِن بَعْدُ وَلَا أَن تَبَدَّلَ بِهِنَّ مِنْ أَزْوَاجٍ وَلَوْ أَعْجَبَكَ حُسْنُهُنَّ إِلَّا مَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ رَّقِيبًا ﴿الأحزاب: ٥٢﴾

اس کے بعد آپ کے لئے دوسری عورتیں حلال نہیں ہیں اور نہ یہ جائز ہے کہ ان بیویوں کو بدل لیں چاہے دوسری عورتوں کا حسن کتنا ہی اچھا کیوں نہ لگے علاوہ ان عورتوں کے جو آپ کے ہاتھوں کی ملکیت ہیں اور خدا ہر شے کی نگرانی کرنے والا ہے۔

مگر اس آیت کا سیاق دیکھا جائے تو اس سے دو آیات قبل یہ آیت ہے:

يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ إِنَّا أَحْلَلْنَا لَكَ أَزْوَاجَكَ اللَّاتِي آتَيْتَ أُجُورَهُنَّ وَمَا مَلَكَتْ يَمِينُكَ مِمَّا أَفَاءَ اللَّـهُ عَلَيْكَ وَبَنَاتِ عَمِّكَ وَبَنَاتِ عَمَّاتِكَ وَبَنَاتِ خَالِكَ وَبَنَاتِ خَالَاتِكَ اللَّاتِي هَاجَرْنَ مَعَكَ وَامْرَأَةً مُّؤْمِنَةً إِن وَهَبَتْ نَفْسَهَا لِلنَّبِيِّ إِنْ أَرَادَ النَّبِيُّ أَن يَسْتَنكِحَهَا خَالِصَةً لَّكَ مِن دُونِ الْمُؤْمِنِينَ قَدْ عَلِمْنَا مَا فَرَضْنَا عَلَيْهِمْ فِي أَزْوَاجِهِمْ وَمَا مَلَكَتْ أَيْمَانُهُمْ لِكَيْلَا يَكُونَ عَلَيْكَ حَرَجٌ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿الأحزاب: ٥٠﴾

اے پیغمبر ہم نے آپ کے لئے آپ کی بیویوں کو جن کا مہر دے دیا ہے اور کنیزوں کو جنہیں خدا نے جنگ کے بغیر عطا کردیا ہے اور آپ کے چچا کی بیٹیوں کو اور آپ کی پھوپھی کی بیٹیوں کو اور آپ کے ماموں کی بیٹیوں کو اور آپ کی خالہ کی بیٹیوں کو جنہوں نے آپ کے ساتھ ہجرت کی ہے اور اس مومنہ عورت کو جو اپنا نفس نبی کو بخش دے اگر نبی اس سے نکاح کرنا چاہے تو حلال کردیا ہے لیکن یہ صرف آپ کے لئے ہے باقی مومنین کے لئے نہیں ہے. ہمیں معلوم ہے کہ ہم نے ان لوگوں پر ان کی بیویوں اور کنیزوں کے بارے میں کیا فریضہ قرار دیا ہے تاکہ آپ کے لئے کوئی زحمت اور مشقّت نہ ہو اوراللہ بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے۔

یعنی یہ سب عورتوں کی اقسام ہیں جن سے آپ شادی کر سکتے ہیں، اور ان کے بعد یعنی ان کے علاوہ آپ دیگر خواتین سے شادی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ حلال نہیں ہے اور وہ آپ کی محرم ہیں۔ اور کسی عورت کا ہبہ کردینے سے مراد یہ ہے کہ وہ آپ سے بغیر مہر کے شادی کرلے جو کہ نبی ص کے لیئے خاص حکم تھا۔ یہی تفسیر ائمہ ع سے منقول ہے اور انہوں نے اس آیت سے بھی استدلال کیا ہے:

حُرِّمَتْ عَلَيْكُمْ أُمَّهَاتُكُمْ وَبَنَاتُكُمْ وَأَخَوَاتُكُمْ وَعَمَّاتُكُمْ وَخَالَاتُكُمْ وَبَنَاتُ الْأَخِ وَبَنَاتُ الْأُخْتِ وَأُمَّهَاتُكُمُ اللَّاتِي أَرْضَعْنَكُمْ وَأَخَوَاتُكُم مِّنَ الرَّضَاعَةِ وَأُمَّهَاتُ نِسَائِكُمْ وَرَبَائِبُكُمُ اللَّاتِي فِي حُجُورِكُم مِّن نِّسَائِكُمُ اللَّاتِي دَخَلْتُم بِهِنَّ فَإِن لَّمْ تَكُونُوا دَخَلْتُم بِهِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَيْكُمْ وَحَلَائِلُ أَبْنَائِكُمُ الَّذِينَ مِنْ أَصْلَابِكُمْ وَأَن تَجْمَعُوا بَيْنَ الْأُخْتَيْنِ إِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ إِنَّ اللَّـهَ كَانَ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿النساء: ٢٣﴾

تمہارے اوپر تمہاری مائیں، بیٹیاں، بہنیں، پھوپھیاں، خالائیں، بھتیجیاں، بھانجیاں، وہ مائیں جنہوں نے تم کو دودھ پلایا ہے, تمہاری رضاعی(دودھ شریک) بہنیں، تمہاری بیویوں کی مائیں، تمہاری پروردہ عورتیں جو تمہاری آغوش میں ہیں اور ان عورتوں کی اولاد, جن سے تم نے دخول کیا ہے ہاں اگر دخول نہیں کیا ہے تو کوئی حرج نہیں ہے اور تمہارے فرزندوں کی بیویاں جو فرزند تمہارے صلب سے ہیں اور دو بہنوں کا ایک ساتھ جمع کرنا سب حرام کردیا گیا ہے علاوہ اس کے جو اس سے پہلے ہوچکا ہے کہ خدا بہت بخشنے والا اور مہربان ہے۔

یعنی یہی عورتیں نبی ص پر حرام ہیں بسبب محرمیت (21)۔ اس کے علاوہ ہمارے نبی ص پر مختلف اشکالات کیئے جاتے ہیں جیسے غرانیق کا قصہ ہے یا بنو قریضہ کا واقعہ ہے یا دیگر واقعات ہیں جن کے الگ سے ردود ہم تحریر کر چکے ہیں۔ اہل سنت کے یہاں اگر نبی ص اپنی رائے سے کچھ دنیوی معاملات میں بیان کریں تو اس میں ان کی اتباع نہیں کی جائے گی اور صرف دینی امور میں ان کی پیروی کی جائے گی کیونکہ انہوں نے ایک بار کھجور کو تلقیح کرنے والوں کو مشورہ دیا تو ان کی فصل کم ہوگئی (22) اگرچہ شیعہ منابع میں ایسا کچھ ثابت نہیں ہے۔ مزید کے لیئے فخر الدین رازی کی کتاب الاربعین فی اصول الدین سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے جہاں ان سب قصص اور متعلقہ آیات پر کلام کیا گیا ہے۔

انبیاء کے متعلق احادیث میں بھی بعض خرافاتی نظریات ہیں، جیسے موسی ع کو برہنہ ہوکر پتھر کے پیچھے بھاگنا، نوح ع کا برہنہ ہونا، داود ع اور اوریا کی بیوی کا معاملہ وغیرہ وغیرہ، جو ایسے واقعات ہیں جن کو عقول قبول نہیں کرتیں اور نہ ہی سندا و متنا درست ہیں، بلکہ ان کو رد کیا جاتا ہے کوینکہ یہ انبیاء کے شایان شان نہیں اور ان میں سے بیشتر روایات اسرائیلات میں سے ہیں۔ یہ سب غلط فہمی کا سبب ہے اور آیات کو تحت اللفظی دور پر دیکھنے کا بغیر شان نزول، تفسیر، تاویل، تشریح، سیاق و سباق، محکم و متشابہ کو دیکھتے ہوئے۔ ہمارا ماننا یہی ہے کہ اللہ نے اپنے انبیاء کو چنا ہے اور ان کو گناہ سے پاک رکھا ہے کیونکہ وہ اس کے پیغام پہنچانے والے ہیں اور لوگوں پر ان کی اتباع واجب ہے تو اگر وہ کسی حرام کام یا گناہ کو انجام دیں گے تو ان کی قوم بھی اس کام کو انجام دیکر گمراہ ہوگی اور ان کو اس عمل کو انجام دینے کا جواز بھی مل جائے گا کیونکہ اللہ کا نمائندہ بھی یہی کر رہا ہے بلکہ ان کو اللہ نے انبیاء و رسل پر طعن کرنے کا موقع ملے گا۔ اس لیئے ہم سمجھتے ہیں عصمت کا عقیدہ ضروری ہے انبیاء و رسل اور خدا کی حجتوں کے لیئے کیونکہ اس کے انکار میں دین و دنیا دونوں کا فساد ہے۔

مآخذ:

(1) مجموع الفتاوى، ج 4، ص 319 – 320

(2) إعتقادات الإمامية، ص 96

(3) عيون أخبار الرضا، ج 1، ص 191 – 204

(4) صحيح البخاري، الرقم: 6611

(5) التبيان، ج 4، ص 367: وعندنا إن ذلك لم يكن محرما عليهما بل نهاهما نهي تنزيه دون حظر وبالمخالفة فاتهما ثواب كثير، وإن لم يفعلا بذلك قبيحا، ولا أخلا بواجب.

(6) صحيح البخاري، الرقم: 3358 و 5084

(7) الأدب المفرد، الرقم: 387، جامع الترمذي، الرقم: 1939، صحيح مسلم، الرقم: 2605، سنن أبي داود، الرقم: 4093

(8) المحاسن، ج 1، ص 258، الكافي، ج 1، ص 465، الكافي، ج 2، ص 217، الكافي، ج 8، ص 100، الرقم: 70، و ص 369، الرقم: 559، الخصال، ص 306، معاني الأخبار، ص 127، 209 – 210، تفسير العياشي، ج 2، ص 183 و 311

(9) الكافي، ج 2، ص 342 و 343

(10) تفسير القمي، ج 2، ص 75

(11) إِنِّي ظَنَنتُ أَنِّي مُلَاقٍ حِسَابِيَهْ ﴿الحاقة: ٢٠﴾

...قَالَ الَّذِينَ يَظُنُّونَ أَنَّهُم مُّلَاقُو اللَّـهِ كَم مِّن فِئَةٍ قَلِيلَةٍ غَلَبَتْ فِئَةً كَثِيرَةً بِإِذْنِ اللَّـهِ وَاللَّـهُ مَعَ الصَّابِرِينَ ﴿البقرة: ٢٤٩﴾

(12) التبيان، ج 7، ص 273

(13) الأمالي للمرتضى، ج 2، س 125

(14) علل الشرائع، ج 1، ص 51 – 52، معاني الأخبار، ص 210

(15) إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿الحجر: ٤٠﴾

إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿الصافات: ٤٠﴾

إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿الصافات: ٧٤﴾

إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿الصافات: ١٢٨﴾

إِلَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿الصافات: ١٦٠﴾

لَكُنَّا عِبَادَ اللَّـهِ الْمُخْلَصِينَ ﴿الصافات: ١٦٩﴾

إِلَّا عِبَادَكَ مِنْهُمُ الْمُخْلَصِينَ ﴿ص: ٨٣﴾

(16) الفصول المختارة، ص 102

(17) يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ تَبْتَغِي مَرْضَاتَ أَزْوَاجِكَ وَاللَّـهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿التحريم: ١﴾

ذَٰلِكَ مِمَّا أَوْحَىٰ إِلَيْكَ رَبُّكَ مِنَ الْحِكْمَةِ وَلَا تَجْعَلْ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتُلْقَىٰ فِي جَهَنَّمَ مَلُومًا مَّدْحُورًا ﴿الإسراء: ٣٩﴾

وَلَئِن شِئْنَا لَنَذْهَبَنَّ بِالَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ بِهِ عَلَيْنَا وَكِيلًا ﴿الإسراء: ٨٦﴾

لَا تُحَرِّكْ بِهِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِهِ ﴿القيامة: ١٦﴾

فَلَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ عَلَىٰ آثَارِهِمْ إِن لَّمْ يُؤْمِنُوا بِهَـٰذَا الْحَدِيثِ أَسَفًا ﴿الكهف: ٦﴾

لَعَلَّكَ بَاخِعٌ نَّفْسَكَ أَلَّا يَكُونُوا مُؤْمِنِينَ ﴿الشعراء: ٣﴾

وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِينَ ﴿٤٦﴾ فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْهُ حَاجِزِينَ ﴿الحاقة: ٤٧﴾

لَّا تَجْعَلْ مَعَ اللَّـهِ إِلَـٰهًا آخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُومًا مَّخْذُولًا ﴿الإسراء: ٢٢﴾

وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَىٰ عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَّحْسُورًا ﴿الإسراء: ٢٩﴾

وَاصْبِرْ وَمَا صَبْرُكَ إِلَّا بِاللَّـهِ وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُ فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴿النحل: ١٢٧﴾

وَلَا تَحْزَنْ عَلَيْهِمْ وَلَا تَكُن فِي ضَيْقٍ مِّمَّا يَمْكُرُونَ ﴿النمل: ٧٠﴾

وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ﴿الحجر: ٩٧﴾

وَلَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ إِنَّهُمْ لَن يَضُرُّوا اللَّـهَ شَيْئًا يُرِيدُ اللَّـهُ أَلَّا يَجْعَلَ لَهُمْ حَظًّا فِي الْآخِرَةِ وَلَهُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿آل عمران: ١٧٦﴾

يَا أَيُّهَا الرَّسُولُ لَا يَحْزُنكَ الَّذِينَ يُسَارِعُونَ فِي الْكُفْرِ مِنَ الَّذِينَ قَالُوا آمَنَّا بِأَفْوَاهِهِمْ وَلَمْ تُؤْمِن قُلُوبُهُمْ وَمِنَ الَّذِينَ هَادُوا سَمَّاعُونَ لِلْكَذِبِ سَمَّاعُونَ لِقَوْمٍ آخَرِينَ لَمْ يَأْتُوكَ يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ مِن بَعْدِ مَوَاضِعِهِ يَقُولُونَ إِنْ أُوتِيتُمْ هَـٰذَا فَخُذُوهُ وَإِن لَّمْ تُؤْتَوْهُ فَاحْذَرُوا وَمَن يُرِدِ اللَّـهُ فِتْنَتَهُ فَلَن تَمْلِكَ لَهُ مِنَ اللَّـهِ شَيْئًا أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَمْ يُرِدِ اللَّـهُ أَن يُطَهِّرَ قُلُوبَهُمْ لَهُمْ فِي الدُّنْيَا خِزْيٌ وَلَهُمْ فِي الْآخِرَةِ عَذَابٌ عَظِيمٌ ﴿المائدة: ٤١﴾

قَدْ نَعْلَمُ إِنَّهُ لَيَحْزُنُكَ الَّذِي يَقُولُونَ فَإِنَّهُمْ لَا يُكَذِّبُونَكَ وَلَـٰكِنَّ الظَّالِمِينَ بِآيَاتِ اللَّـهِ يَجْحَدُونَ ﴿الأنعام: ٣٣﴾

وَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ إِنَّ الْعِزَّةَ لِلَّـهِ جَمِيعًا هُوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ﴿يونس: ٦٥﴾

وَمَن كَفَرَ فَلَا يَحْزُنكَ كُفْرُهُ إِلَيْنَا مَرْجِعُهُمْ فَنُنَبِّئُهُم بِمَا عَمِلُوا إِنَّ اللَّـهَ عَلِيمٌ بِذَاتِ الصُّدُورِ ﴿لقمان: ٢٣﴾

فَلَا يَحْزُنكَ قَوْلُهُمْ إِنَّا نَعْلَمُ مَا يُسِرُّونَ وَمَا يُعْلِنُونَ ﴿يس: ٧٦﴾

وَلَن تَرْضَىٰ عَنكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَىٰ حَتَّىٰ تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّـهِ هُوَ الْهُدَىٰ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ ﴿البقرة: ١٢٠﴾

وَلَئِنْ أَتَيْتَ الَّذِينَ أُوتُوا الْكِتَابَ بِكُلِّ آيَةٍ مَّا تَبِعُوا قِبْلَتَكَ وَمَا أَنتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَهُمْ وَمَا بَعْضُهُم بِتَابِعٍ قِبْلَةَ بَعْضٍ وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم مِّن بَعْدِ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ إِنَّكَ إِذًا لَّمِنَ الظَّالِمِينَ ﴿البقرة: ١٤٥﴾

وَكَذَٰلِكَ أَنزَلْنَاهُ حُكْمًا عَرَبِيًّا وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُم بَعْدَ مَا جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّـهِ مِن وَلِيٍّ وَلَا وَاقٍ ﴿الرعد: ٣٧﴾

قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿الأنعام: ١٥﴾

قُلْ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿الزمر: ١٣﴾

وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ﴿الإسراء: ٧٤﴾

قُل لَّا أَقُولُ لَكُمْ عِندِي خَزَائِنُ اللَّـهِ وَلَا أَعْلَمُ الْغَيْبَ وَلَا أَقُولُ لَكُمْ إِنِّي مَلَكٌ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ قُلْ هَلْ يَسْتَوِي الْأَعْمَىٰ وَالْبَصِيرُ أَفَلَا تَتَفَكَّرُونَ ﴿الأنعام: ٥٠﴾

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا ﴿الكهف: ١١٠﴾

قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ فَاسْتَقِيمُوا إِلَيْهِ وَاسْتَغْفِرُوهُ وَوَيْلٌ لِّلْمُشْرِكِينَ ﴿فصلت: ٦﴾

قُلْ مَا كُنتُ بِدْعًا مِّنَ الرُّسُلِ وَمَا أَدْرِي مَا يُفْعَلُ بِي وَلَا بِكُمْ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَىٰ إِلَيَّ وَمَا أَنَا إِلَّا نَذِيرٌ مُّبِينٌ ﴿الأحقاف: ٩﴾

وَلَقَدْ أُوحِيَ إِلَيْكَ وَإِلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِكَ لَئِنْ أَشْرَكْتَ لَيَحْبَطَنَّ عَمَلُكَ وَلَتَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ﴿الزمر: ٦٥﴾

عَفَا اللَّـهُ عَنكَ لِمَ أَذِنتَ لَهُمْ حَتَّىٰ يَتَبَيَّنَ لَكَ الَّذِينَ صَدَقُوا وَتَعْلَمَ الْكَاذِبِينَ ﴿التوبة: ٤٣﴾

(18) كتاب القراءات للسياري، الرقم: 663، بحار الأنوار، ج 17، ص 92، تفسير القرطبي، ج 20، ص 99، تنزيه الأنبياء، ص 151

(19) تفسير الرازي، ج 31، ص 55

(20) تفسير القمي، ج 2، ص 404 – 405

(21) الكافي، ج 5، ص 387 – 391، تهذيب الأحكام، ج 7، ص 450 – 451

(22) صحيح مسلم، الرقم: 2362: حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الرُّومِيِّ الْيَمَامِيُّ، وَعَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ الْعَنْبَرِيُّ، وَأَحْمَدُ بْنُ، جَعْفَرٍ الْمَعْقِرِيُّ قَالُوا حَدَّثَنَا النَّضْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ، - وَهُوَ ابْنُ عَمَّارٍ - حَدَّثَنَا أَبُو النَّجَاشِيِّ، حَدَّثَنِي رَافِعُ بْنُ خَدِيجٍ، قَالَ قَدِمَ نَبِيُّ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم الْمَدِينَةَ وَهُمْ يَأْبُرُونَ النَّخْلَ يَقُولُونَ يُلَقِّحُونَ النَّخْلَ فَقَالَ ‏"‏ مَا تَصْنَعُونَ ‏"‏ ‏.‏ قَالُوا كُنَّا نَصْنَعُهُ قَالَ ‏"‏ لَعَلَّكُمْ لَوْ لَمْ تَفْعَلُوا كَانَ خَيْرًا ‏"‏ ‏.‏ فَتَرَكُوهُ فَنَفَضَتْ أَوْ فَنَقَصَتْ - قَالَ - فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ ‏"‏ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ إِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَىْءٍ مِنْ دِينِكُمْ فَخُذُوا بِهِ وَإِذَا أَمَرْتُكُمْ بِشَىْءٍ مِنْ رَأْىٍ فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ ‏"‏ ‏.‏ قَالَ عِكْرِمَةُ أَوْ نَحْوَ هَذَا ‏.‏ قَالَ الْمَعْقِرِيُّ فَنَفَضَتْ ‏.‏ وَلَمْ يَشُكَّ ‏.‏

No comments:

Post a Comment