اسلامي فرقے اورتقيہ

مباحث قبلي سے معلوم ہو کہ بيشتر اسلامي فرقے تقيہ کو قبول کرتے ہیں .لیکن بعض کہتے ہیں کہ جائز نہیں ہے جیسے :

o فرقه ازارقه کہتا ہے ،تقيہ نه قولاً جائزہے ا ور نه فعلاً.

o فرقه صفريه کہتا ہے ، تقيہ قولاً جائز ہے لیکن فعلاً جائز نہیں .

o فرقه زيديه کہتا ہے ، تقيہ اهل عصمت کیلئے جائز ہے ليکن عصمت کے نااہل کیلئے جائز ہے

تقيہ اور احاديث اهل سنت

اس کتاب میں یہ ایک مہم بحث ہے کہ ہم ثابت کریں گے کہ ،کیا اهل سنت والجماعت اور ان کے ائمه نے بھی تقيہ کیا ہے یا نہیں کیا ہے .

وہ احادیث جنہیں مسلم ا ور بخاري نے ذکر کئے ہیں اہل سنت صحیح مانتے ہیں . اوریہ دونوں اس بات کے قائل ہیں کہ اپنی جان بچانے کیلئے کفر کا اظہار کرنا جائز ہے ،اور اسی ضمن میں عمار بن یاسر کا قصہ نقل کرتے ہیں : الا من اكره و قلبہ مطمئن بالايمان .

آگے کہتے ہیں کہ جب بھی اپنی جان خطر میں پڑ جائے تو عمار بن یاسر کی پیروی کرنا کوئی بدعت نہیں ہے . کیونکہ سب جانتے تھے کہ عمار، سر سے لیکر پیر تک یعنی سارا وجود ایمان سے لبریز تھا . (1 )

اہل سنت کے بعض روایات کو اس فصل میں بیان کرنے کی کوشش کروں گا :

1. ذهبي نے اسی قصے کو اپنی کتاب میں نقل کرنے کے بعد لکھا ہے کہ اگر مسلم اور بخاری نے اسے صحیح اور جائز مانے ہیں تو جائز ہے .

تقیہ اور دیدگاہ صحابہ

عمر بن خطاب (ت ۲۳ھ) اور تقیہ

بخاری روایت کرتا ہے کہ عمر بن خطاب نے جب اسلام قبول کیا تو مشرکوں سے خوف زدہ ہوکرگھر میں چھپا رہا ، اس قصہ کو عبداللہ بن عمر خطاب نے یحیی بن سلیمان کے ذریعے " عمر بن خطاب کا اسلام کے باب " میں نقل کیا ہے :وہ لکھتا ہے کہ عمر ابن خطاب بہت ہي خوف زدہ ہوگیا تھا ، اچانک ابو عمر و عاص بن وائل سھمی جس کے بدن پر ریشم کے کپڑے تھے بنی سہم اور ان کے ہم پیمان افراد جو دور جاہلیت میں ان کے ساتھ ہم پیمان ہو چکے تھے ، سے کہا : تمہیں کیا ہوگیا ہے ؟ جواب نہیں دیا .تیری قوم کا کہنا ہے کہ اگر میں مسلمان ہو جاؤ ں تو مجھے قتل کیا جائیگا.تو اس نے کہا : وہ لوگ تمھار ا کچھ نہیں بھگاڑ سکتے . جب اس سے یہ بات سنی تو اس کے بعد سے میں امان محسوس کرنے لگا .

اس کے بعد عاص باہر آیا اور دیکھا کہ لوگ درے سے نیچے آرہے ہیں ، ان سے پوچھا کہ کہاں جارہے ہو ؟ تو کہنے لگے : خطاب کے بیٹے کو قتل کرنے جارہے ہیں.

اس نے کہا: نہیں تم ایسا نہیں کروگے.تو وہ لوگ وہاں سے واپس چلے گئے . (2 )

مقصد یہ ہے کہ یہ حدیث پوری صراحت کے ساتھ بیان کررہی ہے کہ عمر نے تقیہ کے طورپر اپنے آپ کو گھر میں چھپارکھا . اس سے معلوم ہوتا ہے کہ عمر نے اپنی اسلامی زندگی کا آغاز هي تقیہ سے کیا .اور اس کی کوئی عاقل انسان مذمت بھی نہیں کر سکتا ؛ کیونکہ یہ ایک فطری عمل ہے ،اس کے برخلاف اگر کوئی دشمن کے سامنے اپنے آپ کو پیش کرلے تووہ قابل مذمت ہے .

عبد اللہ ابن مسعود(ت ۳۲ھ)اور تقیہ

عبداللہ ابن مسعود کہتا ہے : جب بھی مجھے کوئی ظالم و جابر اپنی مرضی کے مطابق الفاظ زبان پر لانے پر مجبور کرے جو ایک یا دو کوڑے لگنے سے بچنے کا سبب ہو تو ضرور وہ الفاظ زبان پر جاری کروں گا .

اسی کے ذیل میں ابن حزم کہتا ہے:اس بارے میں کسی بھی صحابی کے درمیان کوئی اختلاف نہیں ہے . بلکہ سب کا اتفاق ہے .(3 )

یہ بات تقیہ کے جائز ہونے اورسارے صحابہ کا اتفاق ہونے پر دلیل ہے اگر چہ جابر حکمران کے ایک یا دو تازیانے سے بچنے کیلئے ہی کیوں نہ کیا جائے .

ابن مسعود کا تقیہ کرنے کا دوسرا مورد ولید بن عقبہ کے پیچھے نماز پڑھنا ہے کہ ولید کبھی شراب پی کر مستی کی حالت میں مسجد نبویﷺ میں آتا اور نماز جماعت پڑھاتا تھا ؛ ایک دن صبح کی نماز میں اس نے چار رکعت پڑھائی !! جب لوگوں نے تعجب کیا اور ایک دوسرے کے ساتھ کانا پھوسی کرنے لگے تو کہا: کیا تمھارے لئے ایک رکعت کا اور اضافہ کروں ؟

ابن مسعود نے اس سے کہا :ہم آج کے دن کو ابتدا سے ہی زیادتی کے ساتھ شروع کریں گے . (4 )

اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ ابن مسعود اور دوسرے تمام نمازگذاروں کا فاسق اور شراب خوار حاکم کے سامنے تقیہ کرتے ہوئے نماز ادا کی ہیں . اور یہ وہی شخص ہے جسے عثمان کے زمانے میں شرابخواری کے جرم ميں کوڑے مارےگئے تھے . (5 )

ابو الدرداء(ت۳۲ھ)اور تقیہ

بخاری اپنی کتاب میں ابودرداء سے روایت کرتے ہیں کہ ہم ایک گروہ کے سامنے مسکرا رہے تھے جب کہ اپنے دلوں میں ان پر لعنت بھیج رہے تھے . (6 )

ابو موسی اشعری(ت۴۴ھ)اور تقیہ

ابو موسی اشعری نے بھی اسی روایت کو اسی طرح نقل کیا ہے کہ ہم ایک گروہ کے سامنے مسکرا رہے تھے جب کہ اپنے دلوں میں ان پر لعنت بھیج رہے تھے . اس نے اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ اس گروہ سے مراد وہ ظالم اور جابر حکمران تھے ، کہ جن کے شر سے بچنے کیلئے تقیہ کرتے ہوئے ہم ان کے سامنے مسکرا رہے تھے. (7 )

ثوبان (ت۵۴ھ) غلام پیامبر(ص) اور تقیہ

یہ بات مشہور ہے کہ ثوبان جھوٹ کو ان موارد میں مفید اور سود مند جانتا تھا جہاں سچ بولنا مفید نہ ہو . غزالی (ت۵۰۵ھ) نے ان سے نقل کیا ہے کہ انہوں نے کہا : جھوٹ بولنا گناہ ہے سوائے ان موارد میں کہ جہاں کسی مسلمان کو نقصان اور ضرر سے بچائے اور فائدہ پہونچے . (8 )

ابو ہریرہ (ت۵۹ھ) اور تقیہ

ان کی زندگی کے بہت سارے واقعات ہیں جنہیں پڑھ کر معلوم ہوجاتا ہے کہ انہوں نے اموی حکومت والوں کی شر سے بچنے کیلئے تقیہ کو بہترین اور وسیع ترین وسیلے کے طور پر استعمال کیا ہے . ابوہریرہ بطور واضح تقیہ کرتا تھا اور کہتا تھا کہ اگر تقیہ نہ ہوتا تو میری گردن بھی اڑا چکی تھی .

صحیح بخاری نقل کرتا ہے کہ اسماعیل نے ہمارے لئے نقل کیا کہ میرے بھائی نے ابی ذئب سے انہوں نے سعید مقبری سے انہوں نے ابی ہریرہ سے روایت کی ہے کہ: دوچیزوں کو پیامبر خدا (ص ) سے ہم نے حفظ کیا ؛ ایک کو ہم نے پھیلا دی دوسری کومخفی رکھا . اگر اسے بھی آشکار کرتے تو میری گردن کٹ چکی ہوتی .(9 )

..............

(1 ) . تقیہ از دیدگاہ مذاہب و فرقہ ہای اسلامی ، ص ۹۵.

(2 ) . صحیح بخاری ۵: ۶ باب اسلام عمر بن خطاب.

(3 ) . المحلی ابن حزم ج ۸ ص ۳۳۶،مسالہ ۱۴۰۹.

(4 ) . قاضی دمشقی، شرح العقیدہ الطحاویہ؛ ج۲،ص ۵۳۳.

(5 ). صحیح مسلم،ج۳،ص ۱۳۳۱، کتاب الحدود ، باب الخمر.

(6 ) .صحیح بخاری، ج ۸ ص ۳۷ کتاب الادب ، باب المداراۃ مع الناس.

(7 ) . قرافی، الفروق ؛ ج۴ ، ص ۲۳۶.

(8 ) . احیاء علوم الدین ؛ غزالی ،ج ۳،ص ۱۳۷.

(9 ) . صحیح بخاری ، ، کتاب العلم، باب حفظ العلم ،ج۱، ص ۴۱

 

No comments:

Post a Comment