ابتدا میں اس نکته کی طرف توجه مبذ ول کرانا ضروری هے که اولا: ائمه معصومین کے اسمائے گرامی کا ذکر پیغمبر اکرم صلی کے کلام میں واضح طور پر آیا هے، خاص کر حضرت علی علیه السلام کے اسم مبارک اور آپ کی ولایت اور جانشینی کے بارے میں آنحضرت صلی الله علیه و آله وسلم نے کئی بار صاف صاف وضاحت فرمائی هے. اس کی ابتدا آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے بعثت کے آغازپر اپنے رشته داروں کو ابلاغ رسالت کرتے هوئے کی اور فرمایا: " جو شخص سب سے پهلے مجھـ پر ایمان لائے گا، وه میرا وصی، جانشین اور وزیر هوگا" اور علی علیه السلام کے علاوه کسی نے پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی اس فرمائش کا مثبت جواب نهیں دیا اور آخر کار آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے آپ علیه السلام سے فرمایا:" تم میرے بعد میرے وصی، وزیر اور خلیفه هو[1] " دوسرا موقع" حدیث غدیر" هے که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے واضح طور پر فرمایا:" من کنت مولاه فعلی مولاه"[2] "جس جس کا میں مولاهوں، اس کے علی بھی مولاهیں" اور اسی طرح "حدیث منزلت" که پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے حضرت علی علیه السلام سے فرمایا:" انت منی بمنزله هارون من موسی الا انه لانبی بعدی[3]".
حضرت علی علیه السلام کی خلافت وجانشینی کے بارے میں پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی احادیث اکثرا متواتر هیں، اور اس مطلب کی طرف اهل سنت اور شیعوں کی بهت سی کتابوں میں اشاره هواهے[4]. ایک دوسری حدیث میں آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم نے ائمه معصومین علیهم السلام کے اسمائے گرامی، حضرت علی علیه السلام سے لے کر حضرت حجت (عج ) تک جابربن عبدالله انصاری سے بیان فرمائے هیں[5].
لهذا اس مطلب کو مد نظر رکهنا چاهئے که اگر چه ائمه اطهار علیه السلام کے نام قرآن مجید میں واضح طور پر ذکر نهیں هوئے هیں، لیکن پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے ان کے نام واضح طورپر بیان فرمائے هیں اور ان کی جانشینی اور امامت پر تاکید فرمائی هے، جبکه قرآن مجید کے مطابق آنحضرت صلی الله علیه وآله وسلم کا کلام مکمل طورپر حق اور وحی الهی کے مطابق هے[6].
ثانیا: قرآن مجید میں امیر المومنین علی علیه السلام کی ولایت کے بارے میں اشاره هواهے اگر چه واضح طور پر آپ (ع) کا نام نهیں آیا هے. عام مفسرین، خواه شیعه هوں یا سنی، نے اعتراف کیا هے که یه آیه شریفه حضرت علی علیه السلام کی شان میں نازل هوئی هے اور آپ کے علاوه اس کا کوئی اور مصداق نهیں هے[7]. اور وه سوره مائده کی٥٥ وین آیت هے که جس میں فرمایاهے: انما ولیکم الله ورسوله والذین آمنوا الذین یقیمون الصلوه و یوتون الزکوه وهم راکعون" ایمان والو! بس تمهارا ولی الله هے اوراس کا رسول اور صاحبان ایمان جو نماز قائم کرتے هیں اور حالت رکوع میں زکوه دیتے هیں."
چونکه اسلام میں کوئی ایسا حکم اور قانون نهیں هے که انسان رکوع کی حالت میں زکات ادا کرے،اس لئے معلوم هوتاهے که یه آیه شریفه ایک ایسے واقعه کی طرف اشاره کرتی هے جو ایک بار خارج میں رونما هواهے، اوروه یه تھا که حضرت علی علیه السلام رکوع کی حالت میں تھے که ایک سائل نے آکر مدد کی درخواست کی، حضرت (ع)نے اپنی انگلی کی طرف اشاره فرمایا اور سائل نے آکر انگلی سے انگوٹهی نکال لی اور چلا گیا [8].اسی لئے آیه شریفه فرماتی هے: [9]بس تم مسلمانوں کا ولی اور سرپرست الله اور اس کا رسول اور حضرت علی علیه(ع)هیں اور ان کے علاوه کوئی اور تم پر ولایت نهیں رکھتا هے.
پس ، یهاں تک واضح هوا که پیغمبر اکرم صلی کی زبان پر معصوم کا نام صراحت کے ساتھـ جاری هواهے اور قرآن مجید میں بھی امیر المومنین حضرت علی علیه السلام کی ولایت کے بارےمیں واضح اشاره وکنایه بیان هواهے. اگر ایک انصاف پسند اور حق وحقیقت کا متلاشی محقق، تهوڑی سی تحقیق اور جانچ کرے تو اسے معلوم هوگا که پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم کی نظر میں آنحضرت (ص)کے بعد آپ کی جانشینی اور امامت کے بارے میں، حضرت علی علیه السلام اور ان کی اولاد طاهرین کی خلافت تھی. لیکن یه سوال که قرآن مجید میں کیوں واضح طورپر ائمه اطهار علیه السلام کے نام ذکر نهیں هوئے هیں؟ اس کی دو دلیلیں هوسکتی هیں:
١. قرآن مجید اس امر پر مبنی هے که مسائل کو اجمالی صورت میں اور اصول وقاعده کی شکل میں بیان کرے نه یه که ان کی تفصیل اورجزئیات کی تشریح کرے، چنانچه بهت سے اصول اور فروع کے بارے میں قرآن مجید میں اسی شیوه سے استفاده کیاگیا هے-
یه جواب ، امام جعفر صادق علیه السلام[10] کی ایک روایت میں پیش کیاگیا هے اور امام (ع) اپنے کلام کی تائید میں تین مثا لیں پیش کر تے هیں: ایک یه که نماز کے بارے میں قرآن مجید نے مسئله کو اجمالی طور پر بیان فر مایا هے اور یه نهیں کها هے که هر نماز کی کیفیت و کمیت کیسی هے اور کس طریقه سے بجا لانی چاهئے – لیکن پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے مسلمانوں کے لئے نماز کو بجالانے کا طریقه اور هر نماز کی رکعتوں کی تعداد بیان فر مائی هے- اس کے بعد زکات کے مسئله کو مثال کے طور پرپیش کرتے هوئے فر ماتے هیں که زکات کا مسئله قرآن مجید میں صرف ایک اصل کے طور پر بیان هوا هے، لیکن پیغمبر اسلام صلی الله علیه وآله وسلم نے معین فر مایا هے که زکات کن چیزوں سے متعلق هے اور هر ایک کا نصاب کس قدر هو نا چاهئے – اور پھر احکام حج کی طرف اشاره فر مایا هے که قرآن مجید میں صرف حج کے واجب هو نے کا ذکر آیا هے لیکن پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے اس کے طریقه کو ذاتی طور پر مسلمانوں کے لئے بیان فر مایا هے-[11]
اس لئے اگر هم یه توقع رکهیں که قرآن مجید تمام مسائل کے بارے میں تفصیلات اور جزئیات بیان کر ےتو هماری یه توقع بے جا هے – اگر ائمه اطهار(ع) کے اسمائے گرامی ایک ایک کر کے قرآن مجید میں بیان نهیں هوئے هیں تو یه مکتب اهل بیت(ع) سے عدم تمسک کی دلیل نهیں بن سکتی هے ، چنانچه قرآن مجید میں نهیں آیاهے که نماز ظهر چار رکعت هے اس لئے اس بهانه سے اس کو دوهی رکعت میں نهیں پڑھا جاسکتا هے ، اور چونکه قرآن مجید میں نهیں آیا هے که حج میں کعبه کے گرد سات چکر لگانے چاهئے، اس بهانه سے طواف کو ترک نهیں کیا جاسکتا هے-
٢)ایسے مسئله میں که مخالفت کا زیاده احتمال هو ،مصلحت یهی هے که اسے قرآن مجید غیر مستقیم طور پر بیان کر ے ، کیونکه احتمال هے که امیرالمومنین علیه السلام کی امامت کے مسئله سے مخالفت کا دامن قرآن مجید تک پھیل جائے اور یه مسئله مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف هے،لیکن قابل تو جه بات هے که خداوند متعال قرآن مجید میں فر ماتا هے:" انا نحن نزلنا الذکر و انا له لحافظون-" [12]" هم نے قرآن مجید کو نازل کیا اور هم خود اس کے محافظ هیں-" قرآن مجید کو تحریف اور کم و زیاده هو نے سے بچانے کا ایک طریقه یهی هے که احتمال مخا لفت والے مسائل ایسے بیان کئے جائیں تاکه مسلمان نما منافقین کو قرآن مجید میں تحریف کر نے کا بهانه نه ملے اور اس طرح قرآن مجید کی قدر ومنزلت اور احترام کو دهچکا نه پهونچے-[13]
آیت الله شهید مطهری اپنے بیانات میں: "اس مطلب کے بارے میں که قرآن مجید نے حضرت علی علیه السلام کی امامت و خلافت کو کیوں نام کے ساتھـ ذکر نهیں کیا هے؟ اس طرح جواب دیتے هیں که اولاً: قرآن مجید اس امر پر مبنی هے که مسائل کو اصل کی صورت میں بیان کرے اور ثانیاً: پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم یا خداوند متعال اس مسئله کو اس صورت میں بیان کر نا نهیں چاهتے هیں ، کیونکه بالآخر اس میں نفسانی خواهشات کی مداخلت کا احتمال تھا – جس صورت میں مسئله پیش کیا گیا هے ، اس کے بارے میں بھی توجیه اور اجتهاد کر کے چه میگوئیاں کی گئی هیں که پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کی مراد چنین و چنان تھی ،یعنی اگر اس سلسله میں کوئی صریح آیت بھی موجود هو تی تو ، پھر بھی کوئی نه کوئی توجیه کر تے – پیغمبراکرم صلی الله علیه وآله وسلم نے اپنے بیان میں وضاحت کے ساتھـ فر مایا هے : "ذا علی مولاه" اس سے بھی واضح تر کیا هو ناچاهئے ؟! لیکن پیغمبر صلی الله علیه وآله وسلم کے اس واضح کلام کی نافر مانی کر نے اور پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی وفات کے فوراً بعد قرآن مجید کی کسی واضح آیت کی نافر مانی کر نے میں زمین آسمان کا فرق هے – اس لئے میں نے اپنی کتاب " خلافت و ولایت " کے مقد مه میں یه جمله نقل کیا هے که حضرت امیرا لمٶ منین (ع) کے زمانه میں ایک یهودی ، صدر اسلام کے ناگفته به حوادث کے سلسله میں تمام مسلمانوں پر طعنه زنی کر نا چاهتا تھا ( حقیقت میں قابل طعنه زنی بھی هے) اس نے حضرت علی(ع) سے مخاطب هو کر کها: "مادفنتم نبیکم حتی اختلفتم فیه" ابھی اپنے پیغمبر(ص) کو دفن بھی نه کر پائے تھے که تم لوگ ان کے بارے میں اختلاف سے دوچار هو گئے! امیرالمٶمنین (ع) نے جواب میں فر مایا :" انا اختلفنا عنه لافیه ولکنکم ماجفت ارجلکم من البحر حتی قلتم لنبیکم : اجعل لنا الها کما لهم آلهھ . فقال انکم قوم تجهلون-" هم نے پیغمبر(ص) کے بارے میں اختلاف نهیں کیا هے ، همارا اختلاف ایک حکم کے بارے میں تھا ، جو همیں اپنے پیغمبر(ص) کی طرف سے ملا تھا ، لیکن تمهارے پاٶں دریا کے پانی سے ابھی خشک نهیں هوئے تهے ، که تم لوگوں نے اپنے پیغمبر سے مطالبه کیا که توحید کے بنیادی اصول کو پامال کر نے کی اجازت دے دو اور ان سے کها که همارے لئے ان کے مانند ایک ایسا بت بنادو- اس لئے جو کچھـ همارے ساتھـ پیش آیا اور جو کچھـ تمهارے ساتھـ پیش آیا هے اس میں زمین آسمان کا فرق هے –هم نے خود پیغمبر (ص) کے بارے میں اختلاف نهیں کیا هے بلکه هم نے اس بارے میں اختلاف کیا هے که پیغمبر (ص) کے حکم کا مفهوم اور مراد کیا هے؟ ان دو کے درمیان کافی فرق هے که جو کام انجام دیتے تھے اس کی خارج میں یوں توجیه کر تے (نه یه که حقیقت میں ایسا تها) اور کهتے که جنهوں نے یه غلطی کی هے ، انهوں نے خیال کیا هے که پیغمبر(ص) کی مراد یه تھی ، اور نتیجه کے طور پر پیغمبر(ص) کے فرمان کی اس طرح توجیه کی ، اور یا یه کهیں که قرآن مجید کی نص کو اس وضاحت کے باوجود پامال کیاگیا هے یا قرآن مجید کی تحریف کی گئی هے-[14]
اس لئے کها جاسکتا هے که ائمه اطهار علیم السلام یا کم از کم امیرالمٶمنین حضرت علی علیه السلام کے نام کا قرآن مجید میں وضاحت کے ساتھـ ذکر نه هو نا قرآن مجید کو تحریف اور کم و زیاده کر نے سے بچانا تھا،چنانچه هم دیکھتے هیں که آیات تطهیر [15]، تبلیغ [16]اور ولایت[17] ، بالترتیب پیغمبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی بیویوں سے متعلق آیات یا احکام سے متعلق آیات اور یا اهل کتاب سے عدم دوستی سے متعلق آیات کے بیچ میں آئی هیں که بظاهر ان کا ائمه اطهار علیهم السلام اور حضرت علی علیه السلام کی ولایت سے کو ئی ربط نهیں هے- لیکن ایک انصاف پسند محقق تھوڑی سے غور وحوض کے بعد متوجه هو سکتا هے که آیت کے اس حصه کا سیاق اس کے ماقبل اور مابعد آیات سے مختلف هے اور یه آیات ایک خاص مقصد کے پیش نظر ایسی جگهوں پر رکھی گئی هیں-[18]
[1] - ابن البطریق ،العمده ،ص١٢١،و١٣٣، سید ھاشم بحرانی ،غایھ المرام،ص،٣٢٠،علامه امینی،ج٢،ص٢٧٨-
[2] - یه حدیث متواتر هے اور شیعوں و سنیوں کی کتابوں میں درج هے – کتاب "الغدیر" میں اس حدیث کو نقل کر نے والوں کے نام تر تیب سے پهلی صدی سے چودهویں صدی تک طبقه بندی کر کے ذکر کئے گئے هیں- ان میں ٦٠ افراد اصحاب پیغمبر(ص) هیں که جو اهل سنت کی کتابوں میں اس حدیث کے راوی تھے اور ان کے نام مذکوره کتاب میں درج کئے گئے هیں اور اس کے علاوه کتاب "عبقات الانوار " میں میر حامد حسین نے حدیث کے متواتر هو نے کو ثابت کیا هے- ملاحظه هو: الغدیر ص١٤- ١١٤،ابن المغاز لی ،مناقب،ص ٢٥- ٢٦، مطهری، مرتضی، امامت و رهبری ،ص٧٢- ٧٣-
[3] - العمده ،ص١٧٣- ١٧٥، احمد بن حنبل ، مسند احمد، ،ج٣،ص٣٢، الغدیر،ج١-،ص٥١،ج٣،ص١٩٧-٢٠١-
[4] - حضرت علی علیه السلام کی امامت سے مربوط احادیث کے متواتر هو نے کو ثابت کر نے کے لئے کتاب "الغدیر" اور کتاب "عبقات" میں بهت کوششیں کی گئی هیں –اهل سنت کے فاضل قوشجی نے بھی ان میں سے بعض روایتوں کے متواتر هو نے کو مسترد نهیں کیا هے – ملاحظه هو: شرح قوشجی بر تجرید الاعتقاد ،خواجه ی طوسی-
[5] - محمد بن حسن حرعاملی ،اثبات الهدا ،ج٣،ص١٢٣،سلیمان بن ابراهیم قندوزی ، ینابیع الموده ،ص٤٩٤،غایه المرام ،ص٢٦٧،ج١٠به نقل از مصباح یزدی ،آموزش عقاید ،ج٢،ص١٨٥-
[6] - "وماینطق عن الهوی ان هوالاوحی یوحی "،نجم،٣،٤-
[7] - ملاحظه هو: تفسیر کی کتابیں ،زیر بحث آیت کے ذیل میں ،جیسے :فخررازی التفسیر الکبیر ،ج١٢،ص٢٥، تفسیر نمونه ،ج٤،ص٤٢١-٤٣٠،جلال الدین سیوطی، دار المثور، ج٢،ص٣٩٣اس کے علاوه اهل سنت کی احادیث کی کتابوں میں یه واقعه نقل کیاگیا هے ،جیسے ذخایرالعقبی ،محب الدین طبری، ص٨٨، نیز جلال الدین سیوطی، لباب النقول ،ص٩٠، علا الدین علی المنتقی ، کنز العمال ،ج٦،ص٣٩١تفسیر نمو نه ،ج٤، ص٤٢٥-
[8] - تحلیل از کتاب امامت ورهبری ،اثر استاد مطهری ،ص٣٨ سے نقل کیاگیا هے-
[9] -"انما" علم نحو کے علما کے مطابق حصر پر دلالت هے ،ملاحظه هو:مختصر المعانی-
[10] - کلینی، کافی، کتاب الحجه ،باب ما نص الله ورسوله علی الائمه واحدً فواحداً ،ج١-
[11] - روایت کا متن یوں هے : عن ابی بصیر قال: سالت ابا عبدالله (ع) عن قوله الله عز وجل "اطیعوالله واطیعوالرسول واولی الامر منکم "،فقال (ع) نزلت فی علی بن ابی طالب والحسن والحسین فقلت له : ان الناس یقولون :فماله لم یسم علیا واهل بیته فی کتاب الله عز وجل ؟قال (ع) قولوالهم: ان رسول الله نزلت علیه الصلاه ولم یسم الله لهم صلاثاً واربعا ،حتی کان رسول الله هوالذی فسر لهم ذلک .ونز لت علیه الز کاه ولم یسم لهم من کل اربعین درهماً ،حتی کان رسول الله هوالذی فسر لهم ذلک. ونزل الحج فلم یقل لهم طوفوا اسبوعاً حتی کان رسول الله هوالذی فسر لهم ذلک-
[12] - اس نکته کو آیت الله هادوی تهرانی نے اپنے درس "مبانی کلامی اجتهاد " میں بیان فر مایا هے که کتاب" مبانی کلامی اجتهاد" کی جلد٢ میں شائع هوگا-
[13] -ایضاً-
[14] -امامت ورهبری ،ص١٠٩-١١٠،طبع ،٢٧،انتشارات صدرا،تهران،١٣٨١-
[15] - احزاب،٣٣:"انما یریدالله لیذهب عنکم الرجس اهل البیت ویطهرکم تطهراً"بس الله کا اراده هے اے اهل بیت که تم سے هر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پاکیزه رکھے جو پاک و پاکیزه رکھنے کا حق هے-" مذکوره آیت کو پیغبر اکرم صلی الله علیه وآله وسلم کی بیویوں سے متعلق آیات کے بیچ میں لایا گیا هے-
[16] - مائده، ٦٧:" یا ایها الرسول بلغ ما انزل الیک من ربک فان لم تفعل فما بلغت رسالته: اے پیغمبر! آپ اس حکم کو پهنچادیں جو آپ کے پروردگار کی طرف سے نازل کیا گیا اور اگر آپ نے یه نه کیا تو گویا اس کے پیغام کو نهیں پهنچایا –" یه آیت مردار اور حرام گوشت کے بارے میً احکام سے متعلق آیا ت کے بیچ میں درج هوئی هے-
[17] - مائده، ٥٥:" انما ولیکم الله ..." یه آیت یهود ونصاری سے عدم دوستی سے متعلق آیات کے ذیل میں آئی هے-
[18] - یه نکته بھی آیت الله هادوی تهرانی کے دروس " مبانی کلامی اجتهاد" سے استفاده کیاگیا هے که اس کتاب کی دوسری جلد میں شائع هو گا-
No comments:
Post a Comment