عدّت در فقہ شیعہ

عدّت ایک فقہی اصطلاح ہے جو اس معین مدت کو کہا جاتا ہے جس میں شادی شدہ عورت طلاق یا کسی اور وجہ سے اپنے شوہر یا اس شخص سے جس نے اس کے ساتھ غلطی سے ہمبستری کی ہے، سے جدا ہونے کے بعد دوسری شادی سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔ عدّت کے کئی اقسام ہیں جن کی مدت بھی متفاوت ہے۔ عدّت

وفات کے علاوہ باقی تمام اقسام میں عدّت کی شرط یہ ہے کہ ہمبستری واقع ہوئی ہو۔

عدّت طلاق خون حیض سے پاک ہونے کے تین دورے کے برابر ہے، البتہ اگر عورت حاملہ ہو تو یہ مدت وضع حمل تک ہے۔ وہ عوت جو حیض آنے کی عمر میں ہے لیکن اسے حیض نہ آتا ہو تو عدّت طلاق تین قمری مہینے تک ہے۔ عدّت وفات شوہر چار ماہ دس دن ہے۔ لیکن اگر عورت حاملہ ہو تو عدّت وفات چار ماہ دس دن اور وضع حمل میں سے جو بھی طولانی ہو گا اس کے برابر ہے۔ متعہ کی عدّت دو دفعہ حیض دیکھنے کی مدت ہے اور اگر عورت کو حیض نہ آتا ہو تو 45 دن ہے۔

من جملہ عدّت سے متعلق فقہی احکام میں سے ایک عدّت کے دوران اس عورت سے شادی کرنا حرام ہے۔ اگر کوئی شخص ایسی عورت سے شادی کرے جو عدّت میں ہو تو یہ عورت اس شخص پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو جاتی ہے؛ یعنی ان دونوں کی شادی باطل ہو جاتی ہے اور آخر عمر تک یہ دونوں آپس میں شادی نہیں کر سکتے ہیں۔ اسی طرح طلاق رجعی کی عدت میں موجود عورت سے منگنی کرنا بھی حرام ہے۔ وہ عورت جو عدّت وفات میں ہو اس پر میک اپ کرنا بھی حرام ہے۔

فقہی تعریف

عدّت اس معین مدت کو کہا جاتا ہے جس میں شادی شدہ عورت طلاق یا کسی اور وجہ سے اپنے شوہر یا اس شخص سے جس نے اس کے ساتھ غلطی سے ہمبستری کی ہے، سے جدا ہونے کے بعد دوسری شادی سے اجتناب کرنا ضروری ہے۔[1]

اقسام

عدت کے کئی اقسام ہیں من جملہ ان میں عدہ طلاق، عدہ وفات، متعہ کی عدّت، اجنبی عورت سے غلطی سے ہمبستری ہونے کی عدّت اور مفقودالاثر کی عدّت جن میں سے اکثر کی مدت ایک دوسرے سے مختلف ہوتی ہے۔ فقہاء کے مطابق عدّت وفات کے علاوہ باقی تمام اقسام میں عدّت کی شرط یہ ہے کہ ہمبستری واقع ہوئی ہو۔[2

عدّت طلاق

طلاق یا نکاح کے فسخ ہونے کی وجہ سے شوہر سے جدا ہونے والی عورت کی عدّت تین طُہرْ (خون حیض سے پاک ہونے کا تین دورانیہ) ہے۔[3] اس حکم کو سورہ بقرہ کی آیه 228: "وَالْمُطَلَّقَاتُ يَتَرَبَّصْنَ بِأَنفُسِهِنَّ ثَلَاثَةَ قُرُوءٍ؛ (ترجمہ: اور جن عورتوں کو طلاق دی جائے تو وہ اپنے آپ کو (عقد ثانی) سے روکیں۔ تین مرتبہ ایام ماہواری سے پاک ہونے تک۔)"[4] سے استناد کرتے ہیں۔

البتہ مشہور فقہاء کے فتوے کے مطابق جو عورت حاملہ ہو اس کا عدہ وضع حمل تک ہے۔[5] یہ حکم سورہ طلاق کی آیت نمبر 4 میں بیان ہوا ہے: "وَ أُوْلَاتُ الْأَحْمَالِ أَجَلُهُنَّ أَن يَضَعْنَ حَمْلَهُن(ترجمہ: اور حاملہ عورتوں کی میعاد وضعِ حمل ہے)۔

عورتیں جو حیض نہیں دیکھتیں لیکن حیض دیکھنے کی عمر میں ہوتی ہیں، ان کی عدّت تین قمری مہینے ہیں۔[6] یہ فتوا بھی سورہ طلاق کی آیت نمبر 4 سے مستند ہے جہاں ارشاد ہو رہا ہے: "وَالَِّى يَئِسْنَ مِنَ الْمَحِيضِ مِن نِّسَائكمُ‏ْ إِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتهُُنَّ ثَلَاثَةُ أَشْهُرٍ وَ الَِّى لَمْ يحَِضْن(ترجمہ: اور تمہاری (مطلقہ) عورتوں میں سے جو حیض سے مایوس ہو چکی ہوں اگر ان کے بارے میں تمہیں کوئی شک ہو تو ان کی عدت تین ماہ ہے اور یہی حکم ان عورتوں کا ہے جنہیں (باوجود حیض کے سن و سال میں ہو نے کے کسی وجہ سے) حیض نہ آتا ہو۔)"[7]

عدّہ وفات

شوہر کی وفات کی صورت میں عدہ وفات چار مہینے دس دن ہے۔[8] یہ حکم آیت تَرَبُّص میں آیا ہے؛[9] ہمبستری واقع ہوئی ہو یا نہ اسی طرح دائمی شادی ہو یا متعہ کوئی فرق نہیں ہے۔[10]

البتہ اگر عورت حاملہ ہو تو چار مہینے دس دن اور وضع حمل میں سے جو مدت طولانی ہو عدہ گزارنا واجب ہے۔[11]

عدّت متعہ (نکاح موقت)

اکثر فقہا کے فتوے کے مطابق عدّت متعہ، عقد کی مدت کے ختم ہونے یا شوہر کی طرف سے بخش دینے[12] کے بعد سے دو دفعہ حیض دیکھنے تک ہے۔[13] اس بارے میں دیگر اقوال 45 دن، دو پاکی کے ایام اور ایک حیض دیکھنے کی مدت بھی ہیں۔[14]

لیکن جو عورتیں حیض دیکھنے کی عمر میں ہونے کے باوجود حیض نہیں دیکھتیں ان کو متعہ میں 45 دن تک عدہ گزارنا واجب ہے۔[15]

غلطی سے ہمبستر ہونے کی عدّت

اگر کوئی شخص کسی عورت کے ساتھ غلطی سے ہمبستری کرے تو اس عورت کو عدّت گزارنی پڑے گی اور اگر وہ عورت شوہردار ہو تو اس کا شوہر بھی عدّت کے دوران اس سے ہمبستری نہیں کر سکتا۔ ہمبستری کے علاوہ دوسری لذات کے جائز ہونے کے بارے میں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔[16] ہر صورت میں عدّت کے دوران بیوی کا خرچہ اس کے شوہر کے ذمہ ہے۔ [17]

شوہر دار عورت سے غلطی سے ہمبستری کرنا زنا کے حکم میں نہیں ہے یعنی وہ عورت اس مرد پر ہمیشہ کیلئے حرام نہیں ہوتی ہے۔[18]

غلطی سے ہمبستری کرنے کی عدّت بھی عدّت طلاق کی طرح ہے۔[19] اگر غلطی مرد کی طرف سے ہو تو عدّت ثابت ہے اگرچہ عورت اس ہمبستری کے حرام ہونے کے بارے میں آگاہ ہی کیوں نہ ہو لیکن اگر غلطی عورت کی جانب سے ہو تو عدّت کا ثابت ہونا محل اختلاف ہے۔[20]

عدّت مفقود الاثر

اگر شوہر مفقود الاثر ہو؛ اس طرح کہ اس کے بارے میں کوئی اطلاعات نہ ہو نہ مرنے کی خبر ہو اور نہ زندہ ہونے کی اور کوئی اس کا کوئی مال بھی نہ ہو جس سے اس کی بیوی کا خرچہ دیا جا سکے اور کوئی اور بھی عورت کے اخراجات برداشت نہ کرنے والا نہ ہو تو قول مشہور کی بنا پر عورت حاکم شرع سے طلاق کی درخواست کر سکتی ہے۔اس صورت میں عورت طلاق کے بعد عدّت وفات کی مقدار عدّت گزارے گی جس کے بعد وہ دوسری شادی کر سکتی ہے۔[21]

بعد میں اگر شوہر واپس آجائے تو اگر عورت عدّت میں ہو تو اس سے رجوع کر سکتا ہے (یعنی نکاح پڑھے بغیر دوبارہ اسے اپنی بیوی بنا سکتا ہے)؛ لیکن اگر عدّت گزارنے کے بعد دوسری شادی کی ہو تو پہلے شوہر کے لئے رجوع کی حق نہیں ہے لیکن عدّت تمام ہونے کے بعد ابھی دوسری شادی نہ کی ہو تو آیا پہلا شوہر رجوع کر سکتا ہے یا نہیں اختلاف نظر پایا جاتا ہے۔ مشہور قول کی بنا پر نکاح پڑھے بغیر رجوع کرنا جائز نہیں ہے۔[22]

زناکار عورت کی عدّت

غیر شادی شدہ عورت اگر زنا کا مرتکب ہو اور اسی سے وہ حاملہ ہ جائے تو اس کی کوئی عدّت نہیں ہے۔ مشہور قول کی بنا پر زنا کا مرتکب ہونے والی غیر شادی شدہ عورت اگر حاملہ نہ بھی ہو تو بھی اس کی کوئی عدّت نہیں ہے۔ لیکن جو شخص اس عورت سے شادی کرنا چاہتا ہے اسے ایک حیض دیکھنے تک صبر کرنا مستحب ہے۔ تاکہ اس کے ذریعے اس کی رحم پاک ہو جائے پھر اس سے شادی کرے۔ [23] قول غیر مشہور کے مطابق زنکار عورت اگر حاملہ نہ ہو تو عدّت گزارنا واجب ہے اور اس کی عدّت ایک دفعہ حیض دیکھنے کی مدت ہے۔[24]

شوہر کے مرتد ہونے کی عدّت

چنانچہ اگر شوہر بیوی سے ہمبستر ہونے کے بعد مرتد ملّی ہو جائے تو بیوی کو عدّت طلاق گزارنا پڑیگا۔ شوہر توبہ کرنے کے بعد بیوی سے رجوع کر سکتا ہے لیکن اگر توبہ نہ کرے اور عدّت ختم ہوجائے تو بیوی اس سے جدا ہو گی پھر شوہر کو رجوع کرنے کا حق نہیں ہے۔

اگر شوہر مرتد فطری ہو جائے تو مرتد ہوتے ہی خود بخود بیوی شوہر سے جدا ہو گی اور عدّت وفات گزارے گی اس کے بعد کسی اور مرد سے شادی کر سکتی ہے۔

اگر بیوی مرتد ہوجائے چاہے مرتد ملّی یا فطری، تو زوجیت کا بندھن، عدّت کے اختتام تک باقی رہے گی اگر اس مدت کے اندر عورت توبہ کرے اور دوبارہ اسلام قبول کرے تو شوہر اس سے رجوع کر سکتا ہے۔[25]

عدّت کے احکام

عدّت کے دوران مرد اور عورت پر بعض احکام لاگو ہوتے ہیں۔

عدّت کے دوران شادی بیاہ کا حرام ہونا

عدّت گزارنے والی عورت کے ساتھ شادی حرام اور باطل ہے چاہے دائمی ہو یا موقتی؛ طلاق کی عدّت گزار رہی ہو یا وفات کی یا کسی اور سبب سے کوئی فرق نہیں ہے۔ اسی طرح مذکورہ حکم میں طرفین حکم شرعی(یعنی عدّت کے دوران شادی کا حرام ہونا) یا اس کے موضوع(عورت کا عدّت میں ہونا) کو جانتے ہوں یا نہیں کوئی فرق نہیں ہے۔[26]

عدّت گزارنے والی عورت سے شادی کرنا، باوجود اس کے کہ جانتا ہو عورت عدّت گزار رہی ہے اور اس دوران شادی کرنا حرام ہے، ان دونوں کا ایک دوسرے پر ہمیشہ کیلئے حرام ہونے کا سبب بنتا ہے خواہ ہمبستری کی ہو یا نہیں۔ لیکن حکم شرعی یا اس کے موضوع میں سے دونوں یا کسی ایک سے جاہل ہو تو صرف ہمبستری کی صورت میں ہمیشہ کیلئے حرام ہو گی وگرنہ نہیں۔

مرد اور عورت دونوں یا ان میں سے کوئی ایک حکم شرعی یا اس کے موضوع سے جاہل ہوں اور ہمبستری بھی نہیں ہوئی ہو تو عدّت کے ختم ہونے کے بعد ان دونوں کے شادی کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔[27]

عدّت کے دوران زنا کے احکام

عدّت طلاق رجعی گزارنے والی عورت سے زنا کرنا اس عورت کے مرد پر ہمیشہ کیلئے حرام ہونے کا سبب بنتا ہے۔ لیکن عدّت، وفات، طلاق بائن، متعہ، غلطی سے ہمبستری کرنے اور نکاح کے منسوخی کی وجہ سے ہو اور اس سے زنا کرے تو اس کے ہمیشہ کیلئے حرام ہونے کا سبب نہیں بنتا ہے ہے اور یہ دونوں عدت تمام ہونے کے بعد ایک دوسرے سے شادی کر سکتے ہیں۔ [28]

عدّت کے دوران رشتہ مانگنے کا حکم

عدّت طلاق رجعی گزارنے والی عورت سے صراحتا یا کنایۃ رشتہ مانگنا جائز نہیں ہے لیکن عدّت طلاق بائن گزارنے والی عورت سے کنایۃ رشتہ مانگنا شوہر اور غیر شوہر سب کیلئے جائز ہے۔ اگرچہ شوہر کیلئے صرحتا بھی رشتہ مانگنا جائز ہے چون عدّت کے دوران بھی شوہر کا اس سے شادی کرنے میں کوئی اشکال نہیں ہے۔[29]

عدّت کے دوران شوہر کے گھر سے نکانا یا نکل جانے کا حکم

عدّت طلاق رجعی کے دوران بیوی کو گھر سے نکالنا جائز نہیں ہے مگر یہ کہ عورت کسی غیر شرعی کام کا مرتکب ہو جائے یا گھر والوں کی آزار و اذیت کا باعث بنے۔ اسی طرح خود عورت کا اس دوران شوہر کی اجازت کے بغیر گھر سے باہر نکنا جانا بھی جائز نہیں ہے۔[30]

عدّت کے دوران بیوی کا خرچہ

عدّت طلاق رجعی کے دوران عورت کا خرچہ شوہر پر واجب ہے لیکن طلاق بائن کی عدّت گزارنے والی عورت کا خرچہ صرف اس صورت میں شوہر پر واجب ہے کہ بیوی حاملہ ہو دوسری صورت میں شوہر پر کچھ واجب نہیں ہے۔

عدّت طلاق رجعی میں عورت کا خرچہ بیوی کے خرچہ کے حکم میں ہے۔ بنابراین، اگر عورت کو نشوز کی حالت میں طلاق ہوئی ہو یا ایام عدّت میں اپنے وظائف پر عمل نہ کرنے کی وجہ سے ناشزہ محسوب ہو جائے تو اس کا خرچہ شوہر پر واجب نہیں ہے.[31]

عدّت وفات کے دوران بناؤسنگار کا حکم

شوہر کی وفات پر عدّت گزارنے والی عورت پر وہ تمام چیزیں حرام ہیں جو زینت شمار ہوتی ہیں۔[32]

وہ عورتیں جن کیلیے عدّت نہیں ہوتی

وہ عورت جس سے نکاح کے بعد ہمبستری (قُبُل میں یا دُبُر میں) نہیں ہوئی ہے اس کی عدّت نہیں ہے؛ چاہے اس کی جدایی کا سبب طلاق، فسخ یا بذل یا اتمام مدّت ہو۔ لیکن اگر اس کی جدایی کا سبب شوہر کی وفات ہو تو عدّت گزارنا واجب ہے۔ [33] اکثر فقہاء کے فتوے کے مطابق نابالغ لڑکی اور یائسہ عورت کی بھی کوئی عدّت نہیں ہے۔ غیر مشہور قول کے مطابق ان کو بھی تین ماہ عدّت گزارنا واجب ہے۔[34]

حوالہ جات

نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۱۱.

نمونے کے لئے رجوع کریں: شہید ثانی، الروضۃالبہیۃ، ۱۴۱۰ق، ج۶، ص۵۷؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸، ج۳، ص۲۲؛ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۱۱و۲۱۲.

نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۱۹؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۳.

نمونہ کے لئے رجوع کریں: شیخ مفید احکام‌النساء، ۱۴۱۳ق، ص۴۳؛‌ شیخ طوسی، تہذیب‌الاحکام، ۱۴۰۷ق، ج۸، ص۱۱۶؛ شہید ثانی، مسالک‌الاَفہام، ۱۴۱۳ق، ج۹، ص۲۱۳۔

نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۵۲؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۶.

نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۳۰؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۴.

رجوع کریں: مسالک‌الاَفہام، ۱۴۱۳ق، ج۹، ص۲۲۹؛‌ نجفی، جواہر الکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۳۰.

نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۲، ص۲۷۴؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۷.

سورہ بقرہ، آیت۲۳۴.

نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۲۰۰ و ج۳۲، ص۲۷۵؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۷ و ج۲، ص۲۵۱.

نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۲۰۰، ج۳۲، ص۲۷۵؛ محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۳، ص۲۷.

نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۱۹۶.

محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۵۱؛‌ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۱۹۶.

مختلف الشیعۃ، ج۷، ص۲۳۱ -۲۳۲؛ التنقیح الرائع، ج۳، ص۱۳۲-۱۳۳؛ جواہر الکلام، ج۳۰، ص۱۹۶

محقق حلی، شرایع‌الاسلام، ۱۴۰۸ق، ج۲، ص۲۵۱؛‌ نجفی، جواہرالکلام، ۱۴۰۴ق، ج۳۰، ص۱۹۹.

العروۃ الوثقی‏ (تکملۃ) ج۲، ص۱۰۵-۱۰۶.

العروۃ الوثقی‏ (تکملۃ) ج۲، ص۱۰۶.

جواہر الکلام ج۲۹، ص۴۴۶

جواہرالکلام، ج۳۲، ص۳۴۰ و ۳۷۸

جواہرالکلام، ج۳۲، ص۳۷۸-۳۷۹

جواہرالکلام، ج۳۲، ص۲۹۳ ۲۹۴

مسالک الافہام، ج۹، ص۲۸۹-۲۹۰؛ الحدائق الناضرۃ، ج۲۵، ص۴۹۳-۴۹۴

العروۃ الوثقی، ج۵، ص۵۳۲-۵۳۳

تحریر الاحکام، ج۴، ص۱۶۰؛ مفاتیح الشرائع، ج۲، ص۳۴۴؛ الحدائق الناضرۃ، ج۲۳، ص۵۰۴

الحدائق الناضرۃ، ج۲۴، ص۲۷-۲۸؛ جواہر الکلام، ج۳۰، ص۷۹-۸۰

جواہرالکلام ج۲۹، ص۴۲۸

جواہرالکلام، ج۲۹، ص۴۳۰ ۴۳۷

جواہرالکلام، ج۲۹، ص۴۴۶

جواہرالکلام، ج۳۰، ص۱۱۹-۱۲۳

جواہرالکلام، ج۳۲، ص۳۳۰-۳۳۴؛ منہاج الصالحین (خویی)، ج۲، ص۳۰۲-۳۰۳

جواہر الکلام، ج۳۱، ص۳۱۶-۳۲۱

جواہرالکلام، ج۳۲، ص۲۷۶

جواہر الکلام، ج۳۲، ص۲۱۱-۲۱۲

جواہرالکلام، ج۳۲، ص۲۳۲-۲۳۳

 

No comments:

Post a Comment