جب امام حسین(ع) بالکل تنہا رہ گئے، خیمے سے وداع کر کے نکلے تو ایسی بے پناہ شجاعت دکھائی، جو مقابل آیا اسے واصل جہنم کیا۔ آپ کی شجاعت کا اعتراف دشمن نے بھی کیا، فوج یزید کا وقائع نگار حمید بن مسلم کہتا ہے؛
"اللہ کی قسم میں نے کبھی دشمنوں کے نرغے میں گھرے ایسے شخص کو نہیں دیکھا جس کا سارا گھرانا اس کی آنکھوں کے سامنے قتل ہوا ہو، اور پھر حسین ع جیسا شجاع، ثابت قدم، مطمئن اور جری ہو۔ حالت یہ تھی کہ چاروں طرف سے پیادے ان پر حملہ کرتے تھے مگر جب حسین ع تلوار سونت کر ان پر جوابی حملہ کرتے تو وہ اس طرح بھاگ کھڑے ہوتے جس طرح بھیڑیے کے حملے کے وقت بکریاں بھاگ جاتی ہیں۔ حالانکہ ان کی تعداد تیس ہزار تھی، مگر جب امام ان پر حملہ کرتے تو ان کے سامنے سے یہ لوگ ٹڈیوں کی طرح بھاگ کڑے ہوتے۔" (لہوف، ص105)
یہ صورتحال دیکھ کر شمر ملعون نے ایک مذموم چال چلی، وہ فوج کا ایک دستہ لے کر اہل حرم کے خیموں کی طرف غارتگری کیلئے متوجہ ہوا۔ امام (ع) نے فوج اشقیاء کو مخاطب کر کے کہا؛
"اے آل ابو سفیان کے شیعوں! اگر تمہیں مذہب کا خیال اور آخرت کا خوف نہیں ہے تب بھی تم عرب ہونے کے دعویدار ہو، اپنی غیرت کا ثبوت دو۔ میں کہتا ہوں میں تم سے جنگ لڑ رہا ہوں اور تم مجھ سے۔ خواتین کا اس میں کیا قصور؟"
یہ سن کر شمر ملعون ارادے سے باز آگیا۔
لڑتے لڑتے ایک موقع ایسا بھی آیا کہ آپ فرات تک پہنچ گئے، گھوڑے کو پانی میں داخل کیا، چاہا کہ پانی پیئں، ایک ملعون حصین بن تمیم نے آپ کے تیر مارا جو حلق میں پیوست ہوا، آپ نے ہاتھ آگے بڑھا کر چلو میں خون بھرا اور آسمان کی طرف پھینکا اور فرمایا کہ اے پروردگار میں اس جفاکار قوم کا شکوہ تیری بارگاہ میں کرتا ہوں جس نے میرا خون بہایا اور مجھے پانی پینے سے روکا۔ کسی نے کہا کہ آپ یہاں پانی پیتے ہیں ادھر آپ کے خیموں کو تاراج کیا جا رہا ہے، آپ فورا واپس آئے دیکھا کہ خیمے سالم ہیں۔
آپ دوسری مرتبہ خیمے تشریف لے گئے اور مخدرات کو صبر کی تلقین کی۔ دوبارہ میدان کارزار تشریف لے گئے اور ایسی شجاعت دکھائی کے کشتوں کے پتشے لگا دیے۔ یہ صورتحال دیکھ کر شمر نے تیر اندازوں کو تیر چلانے کا حکم دیا۔ آپ پر اتنے تیر چلائے گئے کہ جسم کے گوشے گوشے میں تیر پیوست ہو گیا۔
ایک شقی نے آپ کی پیشانی اقدس پر پتھر مارا جس کی وجہ سے چہرا لہولہان ہوا، آپ نے کرتہ کا دامن اٹھایا تاکہ خون پونچھیں، کہ اس اثناء میں ایک تین نوک والا تیر آیا اور آپ کے سینے میں پیوست ہوا۔ اسی اثنا میں ایک ملعون صالح بن وہب مزنی نے آپ کی پشت پر اس زور سے نیزہ مارا کہ آپ گھوڑے سے داہنے رخ پر گر گئے۔
آپ گرنے کے بعد اٹھ کھڑے ہوئے، تھوڑا چلتے پھر گر جاتے۔ آپ کا یہ بار بار گرنا ضعف کی وجہ سے نہ تھا بلکہ وجہ یہ تھی کہ آپ چند قدم چلتے، کوئی شقی آپ کو نیزہ مارتا، کوئی تلوار اور آپ گر جاتے۔
ایک ملعون نے آپ کے دہن اقدس میں تیر مارا، ایک نے حلق میں تیر مارا، ایک نے بائیں شانے پر تلوار ایک نے دائیں شانے پر۔ سنان بن انس نخعی نے نیزہ مارا آپ منہ کے بل گر پڑے پھر اٹھ کھڑے ہوئے اور حلق سے تیر کھینچا۔ اس وقت دشمنوں نے آپ کو گھیرے میں لے لیا۔
آپ کو زمین پر گرے کافی دیر ہو گئی تھی لیکن کوئی ملعون آپ کو شہید کرنے کا گناہ اپنے سر نہیں لینا چاہ رہا تھا۔ خولی بن یزید آگے بڑھا لیکن لرزہ براندام ہو کر واپس چلا گیا۔ شمر لعین خود آگے بڑھا اور گستاخانہ انداز میں آپ کے سینہ پر سوار ہوا۔ شمر مبروص تھا یعنی برص کی بیماری تھی۔ امام حسین ع نے اس ملعون کو دیکھ کر فرمایا کہ رسول اللہ(ص) نے سچ فرمایا تھا کہ میں ایک سفید داغ والے کتے کو دیکھ رہا ہوں جو میرے اہلبیت(ع) کے خون میں منہ ڈال رہا ہے۔
اس لعین نے کند تلوار کی بارہ ضربات سے خامس آل عبا نواسہ رسول حضرت سید الشہداء(ع) کی گردن پیچھے سے کاٹ ڈالی۔
آپ کے باوفا گھوڑے نے آپ کے خون سے اپنی پیشانی تر کر لی، اور واپس خیمے میں پہنچا۔ گھوڑے کی ہنہناہٹ سن کر بیبیاں باہر نکلیں، دیکھا کہ گھوڑا خالی ہے اور زخمی ہے۔ یقین ہو گیا کہ امام عالی مقام(ع) شہید ہو چکے ہیں، بیبیوں نے گریہ و بکاء کیا۔ (امالی صدوق: ص98)
انا للہ وانا الیہ راجعون وسیعلم الذین ظلمو ایّ منقلب ینقلبون
تحریر: سید جواد حسین رضوی
No comments:
Post a Comment