حضرت بلال رض کے احوال شیعی منابع و مصادر میں

تحریر: سید علی اصدق نقوی
حضرت بلال - جنکو بلال حبشی سے بھی جانا جاتا ہےاور بلال بن رباح بھی – آپ ص کے سب سے جلیل القدر اصحاب میں سے ہیں اور کسی تعارف کے محتاج نہیں۔ اسکے باوجود، حضرت بلال کا زیادہ تذکرہ نہیں ہوتا ہمارے یہاں اور بعض کا گمان ہے کہ اہل تشیع انکو مثبت نظر سے نہیں دیکھتے۔ چنانچہ ہم شیعی کتب سے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کے احوال نقل کرتے ہیں تاکہ سب کیلئے واضح و آشکار ہو کہ انکا مقام و منزلت کیا ہے۔
شیخ طوسی نے حضرت بلال کو اپنی رجال کی کتاب میں رسول اللہ ص کے اصحاب میں شمار کرکے یوں لکھا ہے:

[ 80 ] 4 - بلال ، مولى رسول الله صلى الله عليه وآله ، شهد بدرا وتوفي بدمشق في الطاعون سنة ثمان عشرة ، كنيته أبو عبد الله وقيل أبو عمرو ، وهو بلال بن رباح ، مدفون بباب الصغير بدمشق .
بلال، یہ رسول اللہ ص کے آزاد کردہ غلام ہیں، یہ جنگ بدر میں موجود تھے اور دمشق میں طاعون کے سبب سال 18 ہجری میں وفات پا گئے، انکی کنیت ابو عبد اللہ تھی اور کہا جاتا ہے ابو عمرو تھی، یہ بلال بن رباح ہیں اور دمشق کے باب صغیر میں مدفون ہیں۔ (1) اور خاکسار نے دمشق میں انکی قبر کی زیارت کی ہے۔ خود بدری صحابی ہونا بھی ایک عظیم فضیلت ہے حضرت بلال رض کیلئے۔
اور شیخ کشی نے اپنی رجال کی کتاب میں بلال اور صہیب کی فصل باندھ کر لکھا ہے:
79 أَبُو عَبْدِ اللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ يَزِيدَ الْقُمِّيِّ، قَالَ حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عِيسَى، عَنِ ابْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ هِشَامِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ (ع) قَالَ‏ كَانَ بِلَالٌ عَبْداً صَالِحاً...
ابو عبد اللہ محمد بن ابراہیم نے کہا مجھ سے علی بن محمد بن یزید قمی نے بیان کیا، کہا مجھ سے عبد اللہ بن محمد بن عیسی نے بیان کیا، جس نے ابن ابی عمیر سے جس نے ہشام بن سالم سے جس نے امام صادق علیہ السلام سے روایت کی، انہوں نے فرمایا: بلال رض ایک نیک بندے تھے... (2)
اس حدیث سے حضرت بلال کی صریح مدح سامنے آتی ہے اگر سنداً روایت میں اشکالات وارد ہو سکتے ہیں۔
اور شیخ صدوق روایت نقل کرتے ہیں:
872 وَرَوَى أَبُو بَصِيرٍ عَنْ أَحَدِهِمَا ع أَنَّهُ قَالَ‌ إِنَّ بِلَالًا كَانَ عَبْداً صَالِحاً فَقَالَ‌ لَا أُؤَذِّنُ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ فَتُرِكَ يَوْمَئِذٍ حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ‌
أبو بصیر نے امام باقر ع یا امام صادق ع سے روایت کی کہ انہوں نے فرمایا: بلال ایک نیک بندے تھے، انہوں نے کہا تھا: میں رسول اللہ ص کے بعد کسی کیلئے اذان نہیں دوں گا، پس اس دن (اذان میں سے) حَيَّ عَلَى خَيْرِ الْعَمَلِ‌ متروک ہوگیا۔ (3)
پھر اس ہی کتاب میں شیخ صدوق حدیث 907 میں مرسل روایت بیان کرتے ہیں:
907 وَرُوِيَ‌ أَنَّهُ لَمَّا قُبِضَ النَّبِيُّ ص امْتَنَعَ بِلَالٌ مِنَ الْأَذَانِ وَقَالَ لَا أُؤَذِّنُ لِأَحَدٍ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ ص وَإِنَّ فَاطِمَةَ ع قَالَتْ ذَاتَ يَوْمٍ إِنِّي أَشْتَهِي أَنْ أَسْمَعَ صَوْتَ مُؤَذِّنِ أَبِي ع بِالْأَذَانِ فَبَلَغَ ذَلِكَ بِلَالًا فَأَخَذَ فِي الْأَذَانِ فَلَمَّا قَالَ اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ ذَكَرَتْ أَبَاهَا ع وَأَيَّامَهُ فَلَمْ تَتَمَالَكْ مِنَ الْبُكَاءِ فَلَمَّا بَلَغَ إِلَى قَوْلِهِ أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ شَهَقَتْ فَاطِمَةُ ع شَهْقَةً وَسَقَطَتْ لِوَجْهِهَا وَغُشِيَ عَلَيْهَا فَقَالَ النَّاسُ لِبِلَالٍ أَمْسِكْ يَا بِلَالُ- فَقَدْ فَارَقَتِ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ ص الدُّنْيَا وَظَنُّوا أَنَّهَا قَدْ مَاتَتْ فَقَطَعَ أَذَانَهُ وَلَمْ يُتِمَّهُ فَأَفَاقَتْ فَاطِمَةُ ع- وَسَأَلَتْهُ أَنْ يُتِمَّ الْأَذَانَ فَلَمْ يَفْعَلْ وَقَالَ لَهَا يَا سَيِّدَةَ النِّسْوَانِ إِنِّي أَخْشَى عَلَيْكِ مِمَّا تُنْزِلِينَهُ بِنَفْسِكِ إِذَا سَمِعْتِ صَوْتِي بِالْأَذَانِ فَأَعْفَتْهُ‌ عَنْ ذَلِكَ‌
اور روایت ہوا ہے کہ جب نبی ص کی رحلت ہوئی تو بلال نے اذان دینے سے منع کردیا اور کہا: میں رسول اللہ ص کے بعد کسی کیلئے اذان نہیں دوں گا، اور سیدہ فاطمہ ع نے ایک دن فرمایا: میں چاہتی ہوں کہ اپنے والد کے مؤذن کی اذان کی آواز سنوں، یہ بات بلال کو پہنچی تو انہوں نے اذان دینا شروع کی۔ جب انہوں نے کہا اللَّهُ أَكْبَرُ اللَّهُ أَكْبَرُ تو سیدہ ع کو اپنے والد اور انکے ایام کی یاد آئی اور خود کو گریہ سے نہ روک سکیں۔ جب بلال نے کہا أَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّداً رَسُولُ اللَّهِ تو فاطمہ ع نے آہ بہری اور چہرے کے بل گریں اور انکو غشی کی حالت طاری ہوئی۔ تو لوگوں نے حضرت بلال کہا: رُک جائیے اے بلال، دختر رسول اللہ ص کی دنیا چھوڑ گئی ہیں۔ ان لوگوں نے گمان کیا کہ سیدہ ع کی وفات ہو گئی ہے۔ تو بلال نے اذان روکی اور مکمل نہیں کیا اسکو۔ فاطمہ ع کو افاقہ ہوا تو انہوں نے بلال سے اذان مکمل کرنے کا کہا مگر بلال نے ایسا نہ کیا اور ان سے عرض کیا: اے عورتوں کی سردار، مجھے ڈر ہے کہ آپ جب میری اذان سنیں گی تو خود کو تکلیف دیں گی، تو سیدہ ع نے بلال کو اس (اذان دینے) سے معاف کردیا۔ (4)
اس ہی باب میں روایت ہے:
865 وَرَوَى مَنْصُورُ بْنُ حَازِمٍ عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع أَنَّهُ قَالَ‌ هَبَطَ جَبْرَئِيلُ ع بِالْأَذَانِ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ ص وَكَانَ رَأْسُهُ فِي حَجْرِ عَلِيٍّ ع فَأَذَّنَ جَبْرَئِيلُ ع وَأَقَامَ فَلَمَّا انْتَبَهَ رَسُولُ اللَّهِ ص قَالَ يَا عَلِيُّ سَمِعْتَ قَالَ نَعَمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ- قَالَ حَفِظْتَ قَالَ نَعَمْ قَالَ ادْعُ بِلَالًا فَعَلِّمْهُ فَدَعَا بِلَالًا فَعَلَّمَهُ‌
اور منصور بن حازم نے امام صادق ع سے روایت کی کہ جبرئیل ع اذان کے ساتھ رسول اللہ ص پر نازل ہوئے جب انکا سر علی ع کی گود میں تھا، تو جبرئیل ع نے اذان و اقامت دی۔ رسول اللہ ص جب متوجہ ہوئے تو فرمایا: اے علی، تم نے سُنا؟ انہوں نے فرمایا: جی ہاں یا رسول اللہ ص، آپ ص نے فرمایا: تم نے یاد کرلیا؟ امام ع نے فرمایا: جی ہاں۔ آنحضرت ص نے فرمایا: بلال کو بلاؤ اور اسکو اذان سکھا دو، پس انہوں نے حضرت بلال کو بلا کر اذان سکھا دی۔ (5)
اور وحید بہبہانی اپنی کتاب "تعليقة منهج المقال" میں لکھتے ہیں:
قوله بلال قال جدي دائر في بعض كتب أصحابنا عن هشام بن سالم عن الصادق عليه السلام وعن أبي البختري قال حدثنا عبد الله بن الحسن ان بلالا أبي ان يبايع ابا بكر وان عمر اخذ بتلابيبه وقال له يا بلال هذا جزاء أبي بكر منك ان أعتقك فلا تجىء تبايعه فقال ان كان أبو بكر اعتقني لله فليدعني لله وان كان اعتقني بغير ذلك فها أنا ذا واما بيعته فما كنت أبايع من لم يسخطه رسول الله صلى الله عليه وآله والذي استخلفه بيعته في أعناقنا إلى يوم القيمة فقال عمر لا أبالك لا تقم معنا فارتحل إلى الشام وتوفى بدمشق بباب الصغير وله شعر في هذا المعنى...
میرے جد نے ہمارے اصحاب کی کسی کتاب میں ہشام بن سالم سے روایت دیکھی جنہوں نے امام صادق ع سے روایت کی ہے، اور ابو البختری نے کہا: ہم سے عبد اللہ بن حسن نے بیان کیا ہے کہ بلال نے حضرت ابو بکر کی بیعت کرنے سے انکار کردیا تو حضرت عمر نے انکے گریبان کو پکڑا اور ان سے کہا: اے بلال، تم حضرت ابو بکر کو یہ بدلہ دیتے ہو؟ انہوں نے تمہیں غلامی سے آزاد کیا تھا مگر تم آکر انکی بیعت نہیں کر رہے؟ تو حضرت بلال نے کہا: اگر حضرت ابو بکر نے مجھے اللہ کی خاطر آزاد کیا تھا تو مجھے اللہ کیلئے چھوڑ دیں اور اگر انہوں نے مجھے اسکے علاوہ کسی اور وجہ سے آزاد کیا تھا تو میں یہاں پر ہی کھڑا ہوں (وہ جو چاہیں کرلیں میرے ساتھ)۔ جہاں تک انکی بیعت کی بات ہے تو میں تو اسکی ہی بیعت کروں گا جس نے رسول اللہ ص کو ناراض نہیں کیا اور جس کو آپ ص نے اپنا خلیفہ بنایا تھا، جسکی بیعت ہماری گردنوں میں قیامت کے دن تک تک ہے۔ حضرت عمر نے کہا: تیرا کوئی باپ نہ ہو، ہمارے ساتھ نہ کھڑا ہو۔ پس حضرت بلال شام چلے گئے اور دمشق میں وفات پا گئے باب صغیر میں، اور انکا اس متعلق ایک شعر بھی ہے۔۔۔ پھر شعر نقل ہوا ہے۔ (6)
اس ہی طرح الکافی میں ایک روایت مروی ہے:
يَقُولُ ص لِبِلَالٍ إِذَا دَخَلَ الْوَقْتُ يَا بِلَالُ اعْلُ فَوْقَ الْجِدَارِ وَارْفَعْ صَوْتَكَ بِالْأَذَانِ
نبی کریم ص نے بلال سے فرمایا جب وقت نماز ہوا: اے بلال، دیوار پر چڑھو اور اونچی آواز سے اذان دو۔ (7)
اور شیخ طوسی نے تہذیب الاحکام میں ایک روایت بیان کی ہے:
35 عَنْهُ عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ حُكَيْمٍ عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ جَعْفَرٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: دَخَلَ رَجُلٌ‌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ عَلَى أَبِي عَبْدِ اللَّهِ ع فَقَالَ لَهُ إِنَّ أَوَّلَ مَنْ سَبَقَ إِلَى الْجَنَّةِ بِلَالٌ قَالَ وَلِمَ قَالَ لِأَنَّهُ أَوَّلُ مَنْ أَذَّنَ.
انہوں نے معاویہ بن حکیم سے جنہوں نے سلیمان بن جعفر سے جنہوں نے اپنے والد سے روایت کی جو فرماتے ہیں: اہل شام کا ایک شخص امام صادق ع کے پاس داخل ہوا اور ان سے کہا: پہلا شخص جو جنت میں جائے گا وہ بلال ہونگے۔ امام ع نے فرمایا: وہ کیوں؟ اس شخص نے کہا: کیونکہ وہ پہلے شخص تھے جنہوں نے اذان دی تھی۔ (8)
سید خوئی کے مطابق پہلی بات کہنے والا کہ جنت میں سب سے پہلے بلال جائیں گے امام ع کا فرمان نہیں بلکہ شامی فرد کا کلام ہے، وہ لکھتے ہیں:
أقول: الظاهر: أن القائل الأول هو الشامي، كما استظهره الميرزا في المنهج، لا الإمام عليه السلام، ويظهر ذلك بالتأمل.
میں کہتا ہوں: ظاہر یہی ہے کہ پہلی بات کہنے والا شامی ہے، جیسا کہ میرزا نے اپنی کتاب منہج میں کہا ہے، نہ کہ امام ع، یہ بات غور کرنے سے ظاہر ہوتی ہے۔ (9)
البتہ علامہ مامقانی کے مطابق پہلی بات کہنے والے امام ع ہیں یعنی یہ امام کا کہنا ہے کہ بلال سب سے پہلے جنت میں جائیں گے (10) اور علامہ تستری نے اپنی کتاب میں بھی یہی ذکر کیا ہے کہ پہلا کلام امام ع کا ہی ہے کیونکہ شیخ طوسی نے جس باب میں یہ بات ذکر کی ہے اسکا تقاضا یہی ہے کہ یہ بلال کے متعلق ہوگا (11)۔
شیخ صدوق نے اپنی کتاب میں ایک اور جگہ بیان کیا ہے:
906 وَكَانَ بِلَالٌ يُؤَذِّنُ بَعْدَ الصُّبْحِ فَقَالَ النَّبِيُّ ص‌ إِنَّ ابْنَ أُمِّ مَكْتُومٍ يُؤَذِّنُ بِاللَّيْلِ فَإِذَا سَمِعْتُمْ أَذَانَهُ فَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى تَسْمَعُوا أَذَانَ بِلَالٍ‌
اور بلال صبح کے بعد اذان دیتے تو نبی ص فرماتے: ابن ام مکتوم رات کو اذان دیتے ہیں پس جب تم انکی اذان سنو تو کھاؤ پیو یہاں تک کہ تم بلال کی اذان سن لو۔ (12)
شیخ صدوق اپنی کتاب الخصال میں ایک حدیث نقل کرتے ہیں:
أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عَلِيِّ بْنِ إِسْمَاعِيلَ قَالَ حَدَّثَنَا البجيري‏ قَالَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَرْبٍ الْوَاسِطِيُّ قَالَ حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ عَنْ أَبِي شَيْبَةَ قَالَ حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ هَمْدَانَ عَنْ أَبِيهِ قَالَ قَالَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ ع‏ السُّبَّاقُ خَمْسَةٌ فَأَنَا سَابِقُ الْعَرَبِ وَسَلْمَانُ سَابِقُ فَارِسَ‏ وَصُهَيْبٌ سَابِقُ الرُّومِ وَبِلَالٌ سَابِقُ الْحَبَشِ وَخَبَّابٌ سَابِقُ النَّبْطِ.
علی بن ابی طالب ع نے فرمایا: سبقت کرنے والے پانچ لوگ ہیں، میں عرب میں سے سبقت لجانے والا ہوں، سلمان فارس میں سے سبقت لجانے والے ہیں، صہیب روم میں سے سبقت لجانے والے ہیں، بلال حبش سے سبقت لجانے والے ہیں اور خباب نبط سے سبقت لجانے والے ہیں۔ (13)
البتہ شیخ تستری کہتے ہیں کہ یہ حدیث موضوع یعنی گھڑی ہوئی ہے (14)، یہ عامہ کی سند سے ہے اور خود اہل سنت علماء رجال و محدثین نے اس حدیث کو باطل کہا ہے مثلا أبو حاتم رازی اور أبو زرعہ۔ اور اس حدیث میں صہیب کی مدح ہے مگر شیخ کشی کی روایت میں صہیب کی مذمت وارد ہوئی ہے جو اس روایت کے منافی ہے جس میں لکھا ہے کہ وہ بُرے بندے (عبد سوء) تھے۔
ابن ادریس حلی نے محمد بن علی بن محبوب کی کتاب سے روایت کیا ہے:
قال رسول الله صلى الله عليه وآله... ويحشر هذا البلال على ناقة من نوق الجنة، يؤذن اشهد ان لا اله الا الله، وان محمد رسول الله، فإذا نادى كسي حلة من حلل الجنة.
رسول اللہ ص نے فرمایا: بلال کو جنت کے اونٹنیوں میں سے ایک اونٹنی پر محشور کیا جائے گا اور وہ اذان دے رہے ہونگے اشهد ان لا اله الا الله، وان محمد رسول الله۔ پس جب وہ پکاریں گے تو انکو جنت کے لباسوں میں سے ایک لباس پہنایا جائے گا۔ (15)
یہ روایت بھی صریح مدح میں ہے اور اس سے حضرت بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا نہ صرف جنتی بلکہ بلند منزلت اور جلالت کا پتا چلتا ہے۔
شیخ مفید سے منسوب کتاب الاختصاص میں ہے:
وقال فيه أبو عبد الله جعفر بن محمد عليهما السلام: رحم الله بلالا " فإنه كان يحبنا أهل البيت...
امام ابو عبد اللہ جعفر بن محمد علیہما السلام نے فرمایا: الله رحم ہو بلال رض پر رحم کرے، کیونکہ وہ ہم اہل بیت سے محبت کرتے تھے۔۔۔ (16) امام ع کا کسی کیلئے رحمت کی دعاء کرنا عموماً مدح میں لیا جاتا ہے۔
شیعی مصادر میں کوئی بھی روایت حضرت بلال کے ذم میں نہیں ملتی، اور جتنی بھی روایات ہیں ان سے مدح کا قرینہ ملتا ہے، اگرچہ انفرادی طور پر ان میں اسنادی ضُعف بھی ہو اجمالی طور پر وہ مدح پر قرائن کے طور پر لی جا سکتی ہیں۔ اور بہت سی روایات عمومی و اجمالی طور پر مؤذن کی بھی تعریف بیان کرتی ہیں جس سے مزید استدلال ہو سکتا ہے حضرت بلال کی مدح پر۔ تو حق کے قریب بات یہی ہے کہ وہ ممدوح ہیں، سید خوئی نے بھی اپنی کتاب میں حضرت بلال کا ذکر کرکے یہ نہیں لکھا کہ وہ مجھول الحال ہیں البتہ انہوں نے کوئی حتمی نتیجہ نہیں دیا، مگر دیگر علماء رجال نے حضرت بلال کے متعلق یہ لکھا ہے:
عبد النبی جزائری:
قلت: لا يبعد استفادة مدحه بحيث يدخل حديثه في الحسن ممّا ذكره ومن غير ذلك من القرائن، والله أعلم.
میں کہتا ہوں: بلال کی مدح کا استفادہ کرنا بعید نہیں کیونکہ انکی حدیث حسن درجے کی ہے جو کہ انہوں نے ذکر کیا ہے اور اسکے علاوہ قرائن کو بھی دیکھتے ہوئے۔ واللہ اعلم۔ (17)
اور علامہ مجلسی نے حضرت بلال کو ممدوح شمار کیا ہے (18) اور علامہ مامقانی بلال کو ثقہ مانتے ہیں اور انکی مروی احادیث کو حسن کی بجائے صحیح کا درجہ دیتے ہیں:
قلت:بل الوجه استفادة توثيقه... رسوخ ملكته،و قوّة ديانته،و فضل عدالته،فالحقّ عندي أنّ حديثه من الصحاح دون الحسان،و اللّه المستعان
میں (علامہ مامقانی) کہتا ہوں: بلکہ انکی توثیق (ثقہ ہونے) کا استفادہ ہوتا ہے، انکے ہُنر کا رسوخ، دیانت کی قوت، عدالت کا فضل ہے، پس حق یہ ہے میرے نزدیک کہ انکی حدیث صحیح احادیث میں شمار ہوگی نہ کہ حسن حدیث میں سے، واللہ المستعان۔ (19)
اور علامہ مامقانی کی ہی کتاب کے حاشیہ میں محقق لکھتے ہیں:
حصيلة البحث أقول:لا بدّ من الحكم بوثاقة المترجم و جلالته بناء على التوثيق بالقرائن... إنّ من يوم إسلامه إلى يوم وفاته لم يعثر المنقّب على ناحية واحدة توحي بضعفه، أو يؤاخذ بها عليها، بل حياته طافحة بما يوجب تقديسه وتعظيمه، وتفانيه في سبيل عقيدته... فهو ثقة بلا ريب، والرواية من جهته صحيحة بلا شك.
بحث کا نتیجہ، میں کہتا ہوں: حتماً بلال کی وثاقت کا حکم آئے گا اور انکی جلالت کا، قرائن کی بناء پر توثیق سے۔۔۔ انکے اسلام لانے سے لیکر انکی وفات کے دن تک کسی محقق نے بھی کسی جہت سے ان میں کوئی کمزوری نہیں پائی، یا کسی چیز پر انکا مواخذہ ہوا ہو، بلکہ حضرت بلال رض کی حیات ایسی باتوں سے بھری ہوئی ہے جس سے انکی تقدیس و تعظیم واجب ہوتی ہے، اور انکے عقیدے کی خاطر ان سے خلوص رکھنا۔۔۔ پس یہ بلا ریب ثقہ ہیں اور ان سے مروی روایت بلا شک صحیح شمار ہوگی۔ (20)
لہذا حضرت بلال رض ممدوح و ثقہ ہیں اور انکی روایات قبول ہونگی، وہ بلا شبہ اہل بہشت میں سے ہیں، نیک بندے ہیں، اور اس بات کے قائل شیعہ امامی علماء بھی رہے ہیں اور روایات اس پر شاہد ہیں۔
مآخذ:
(1) رجال الطوسي، الرقم: 80
(2) رجال الكشي، الرقم: 79
(3) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 872
(4) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 907
(5) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 865
(6) تعليقة منهج المقال، ص 100
(7) الكافي، ج 3، ص 307
(8) تهذيب الأحكام، ج 2، ص 284
(9) معجم رجال الحديث، ج 4، ص 272
(10) تنقيح المقال، ج 13، ص 90
(11) قاموس الرجال، ج 2، ص 396
(12) من لا يحضره الفقيه، الرقم: 906
(13) الخصال، ص 312
(14) قاموس الرجال، ج 2، ص 393
(15) مستطرفات السرائر، ص 601 – 602
(16) الإختصاص، ص 73
(17) حاوي الأقوال، ج 3، ص 97، الرقم: 1061
(18) الوجيزة، الرقم: 307
(19) تنقيح المقال، ج 13، ص 91
(20) تنقيح المقال، ج 13، ص 91

 

No comments:

Post a Comment