حجت اوراسکی اقسام

 منطق کاموضوع معلومات تصوریہ اورمعلومات تصدیقیہ ہیں  ۔ معلومات تصوریہ کا بیان تفصیلا گزرچکااب معلومات تصدیقیہ کوبیان کیاجاتاہے ۔  وہ معلومات تصدیقیہ جو مجہول تصدیقی تک پہنچا دیں انہیں حجت کہتے ہیں اوراسکی تین قسمیں ہیں ۔
۱ ۔  قیاس             ۲ ۔  استقراء                      ۳ ۔  تمثیل
قیاس کابیان
قیاس کی تعریف :
            ’’ھُوَقَوْلٌ مُؤَلَّفٌ مِنْ قَضَایَا یَلْزَمُ عَنْھَا قَوْلٌ ٰاخَرُبَعْدَ تَسْلِیْمِ تِلْکَ الْقَضَایَا‘‘ قیاس اس قول کو کہتے ہیں جو چند ایسے قضایا سے مرکب ہو کہ ان کو تسلیم کرنے کے بعد ایک اورقضیہ ماننا لازم آئے  ۔ جیسا کہ ہر سنی مومن ہے اور ہر مومن نجات پانے والا ہے ان دونوں کوتسلیم کر لینے کے بعد ہمیں ماننا پڑتاہے کہ ہر سنی نجات پانے والا ہے ۔ قیاس کی اقسام کا تفصیلی بیان آگے آئے گا اس سے پہلے چند ضروری اصطلاحات کو بیان کیا جاتا ہے  ۔
قیاس سے متعلقہ چند ضروری اصطلاحات
مقدمات قیاس :
            جن قضایا سے قیاس مرکب ہوتاہے انہیں مقدماتِ قیاس کہا جاتاہے ۔  جیسے أَلْعَالَمُ مُتَغَیِّرٌ وَکُلُّ مُتَغَیِّرٍ حَادِثٌ ۔ نتیجہ اَلْعَالَمُ حَادِثٌ ۔ اس مثال میں اَلْعَالَمُ مُتَغَیِّراورکُلُّ مُتَغَیِّرٍ حَادِثٌ  ۔ دو قضایا ہیں جن سے قیاس مرکب ہے یہ قضایا مقدمات قیاس کہلائیں گے ۔  اس کا نتیجہ اَلْعَالَمُ حَادِثٌ ہے ۔  
اصغر :
            نتیجہ کے موضوع کو اصغر کہتے ہیں ۔ جیسے مذکورہ بالا مثال میں اَلْعَالَمُ ۔
اکبر :
            نتیجہ کے محمول کواکبر کہتے ہیں ۔ جیسے مذکورہ بالا مثال میں  حَادِثٌ ۔
صغری :
            قیاس کے جس مقدمہ میں اصغر مذکور ہواسے صغری کہاجاتاہے ۔ جیسے مذکورہ بالامثال میں  أَلْعَالَمُ(جو کہ اصغرہے )اور قیاس کے پہلے مقدمہ میں ہے لہذا یہ مقدمہ صغری کہلائے گا ۔
کبری :
            قیاس کے جس مقدمہ میں اکبر مذکور ہواسے کبری کہاجاتاہے ۔ جیسے مذکورہ مثالوں میں  ۔ حَادِثٌ(جو کہ اکبر ہے )اور قیاس کے دوسرے مقدمے میں موجود ہے ۔ لہذا یہ مقدمہ کبری کہلائے گا ۔ 
حداوسط :
  جو چیز قیاس کے مقدمات میں مکرر مذکور ہو  ۔ جیسے مذکورہ مثال میں متغیر ۔
قرینہ اورضرب :
   صغری کو کبری کے ساتھ ملانے کوضرب اور قرینہ کہتے ہیں  ۔
شکل :
  حداوسط کواصغر اوراکبر کے ساتھ رکھنے سے جو ہیت حاصل ہوتی ہے اسے شکل کہتے ہیں  ۔
 نتیجہ :
  مقدمات ِقیاس کو تسلیم کر لینے کے بعد جس قضیہ کو ماننا پڑے اسے نتیجہ کہا جاتاہے ۔   جیسے :  اَلْعَالَمُ حَادِثٌ ۔

نتیجہ نکالنے کا طریقہ :
  صغری اور کبری سے حدا وسط کو حذف کردینے کے بعد جو باقی رہے گاوہی نتیجہ ہے ۔  جیسے عالم متغیرہے اور ہرمتغیر چیز حادث ہے اس میں سے حداوسط (متغیر) کو حذف کردینے کے بعد عالم حادث ہے یہ باقی بچے گا اوریہی نتیجہ ہے ۔ 
بَسمَلہ اور تسمیہ میں فرق…٭
  بعض لوگ دونوں کو ایک ہی معنی میں سمجھتے ہیں لیکن ان دونوں میں فرق ہے کہ بسملہ کا معنی ہے ’’بسم اللہ الرحمن الرحیم‘‘کہنا اور لکھنا ۔ اور تسمیہ کا معنی ہے اللہ تعالی کا ذکر کرنا اور یاد کرنا، خواہ کسی بھی طریقہ سے ہو اور اللہ تعالی کے ناموں میں سے کسی بھی نام سے ہو ۔  حاصل یہ کہ تسمیہ عام ہے اور بسملہ خاص ہے جس کو منطق کی اصطلاح میں عموم وخصوص مطلق کہتے ہیں ۔
قیاس کی تقسیم
قیاس کی تقسیم دو اعتبار سے کی جاتی ہے (۱)صورت کے اعتبارسے (۲)مادہ کے اعتبارسے
صورت کے اعتبار سے قیاس کی تقسیم :
اس اعتبار سے قیاس کی دو اقسام ہیں  :
قیاس اقترانی :
  وہ قیاس ہے جس میں نتیجہ یا نتیجہ کی نقیض بعینہ مذکور نہ ہو ۔ جیسے أَلْعَالَمُ مُتَغَیِّرٌ وَکُلُّ مُتَغَیِّرٍ حَادِثٌ ۔
وضاحت :
  یہ قیاسِ اقترانی ہے جسکا نتیجہ اَلْعَالَمُ حَادِثٌ بعینہ مذکور نہیں بلکہ اجزاء کی صورت میں قیاس کے دونوں مقدمات میں مذکور ہے ۔
قیاس اقترانی کی اقسام
اس کی دوقسمیں ہیں  :
۱ ۔ قیاس اقترانی حملی                        ۲ ۔  قیاس اقترانی شرطی
۱ ۔  قیاس اقترانی حملی :
            وہ قیاسِ اقترانی ہے جوصرف قضایا حملیہ سے مرکب ہو ۔  جیسے :   أَلْعَالَمُ مُتَغَیِّرٌ وَکُلُّ مُتَغَیِّرٍ حَادِثٌ ۔
۲ ۔ قیاس اقترانی شرطی :
  وہ قیاس جوصرف قضایا شرطیہ یاقضایا حملیہ وشرطیہ دونوں سے مرکب ہو ۔ 
صرف شرطیہ سے مرکب کی مثال :
  جیسے :  کُلَّمَا کَانتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ ۔  وَکُلَّمَا کَانَ النَّھَارُ مَوْجُوْدًا فَالأَرْضُ مُضِیْئَۃٌاس کا نتیجہ آئے گا ۔  کُلَّمَا  کَانتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالأَرْضُ مُضِیْئَۃٌ ۔
حملیہ وشرطیہ دونوں سے مرکب کی مثال :
  جیسے :  کُلَّمَا کَانَ زَیْدٌ اِنْسَانًا کَانَ حَیَوَانًا  وَکُلُّ حَیَوَانٍ جِسْمٌ  اس کا نتیجہ آئے گا کُلَّمَا کَانَ زَیْدٌ اِنْسَانًا کَانَ جِسْمًا ۔
قیاس اقترانی کے نتیجہ دینے کی شکلیں
  قیاس اقترانی خواہ حملی ہویاشرطی اس کی چارشکلیں ہیں ۔ جنہیں اشکالِ اربعہ کہا جاتاہے ۔  اور شکل کی تعریف سبق نمبر 41میں بیان کی جا چکی ہے ۔
اشکال اربعہ کی تعریفات :
شکلِ اول :
وہ شکل ہے جس میں حداوسط صغری میں محمول اورکبری میں موضوع بن رہی ہو ۔  جیسے : ہر مومن اللہ کا پیارا ہے اور ہراللہ کا پیارا جنتی ہے نتیجہ ہر مومن جنتی ہے ۔ 
شکل ثانی :
  وہ شکل ہے جس میں حد اوسط صغریٰ وکبریٰ دونوں میں محمول بن رہی ہو  ۔ جیسے :  ہر مومن جنتی ہے اور کوئی کافرجنتی نہیں نتیجہ کوئی مومن کافر نہیں ۔
شکل ثالث :
وہ شکل ہے جس میں حداوسط صغری وکبری دونوں میں موضوع بن رہی ہو  ۔ جیسے :   ہر انسان ناطق ہے ۔ اور ہر انسان حیوان ہے ۔ بعض حیوان ناطق ہیں  ۔
شکل رابع :
  وہ شکل ہے جس میں حد اوسط صغری میں موضوع اورکبر ی میں محمول بن رہی ہو ۔  جیسے :  ہرعطاری قادری ہے بعض رضوی عطاری ہیں نتیجہ بعض قادری رضوی ہے  ۔
اشکال اربعہ کے نتیجہ دینے کی شرائط
  اشکال اربعہ سے نتیجہ حاصل کرنے کی  چند شرائط ہیں جن کو یہاں تفصیلا بیان کیاجائے گا ۔ یاد رہے کہ ہرشکل میں سولہ ضروب کا احتمال ہے جن میں سے بعض ضروب شرائط کے پائے جانے کی وجہ سے نتیجہ دیتی ہیں اور بعض ضروب شرائط کے نہ پائے جانے کی وجہ سے صحیح نتیجہ نہیں دیتیں ۔ ان تمام کی تفصیل درج ذیل ہے ۔
شکل اول کے نتیجہ دینے کی شرائط
            (۱)…صغری کا موجبہ ہونا (خواہ کلیہ ہو یاجزئیہ)
            (۲)… کبری کا کلیہ ہونا (خواہ موجبہ ہویا سالبہ)
            شکل اول میں مذکورہ شرائط کے مطابق صرف چار ضروب نتیجہ دیتی ہیں
شکل ثانی کے نتیجہ دینے کی شرائط
اس کے نتیجہ دینے کی دوشرطیں ہیں ۔
            ۱ ۔  ایجاب وسلب کے اعتبار سے دونوں مقدمات کا مختلف ہونا یعنی اگر ایک مقدمہ موجبہ ہو تودوسرا سالبہ ہو ۔ 
            ۲ ۔  کبری کا کلیہ ہونا  ۔
شکل ثانی میں مذکورہ شرائط کے مطابق صرف چار ضروب نتیجہ دیتی ہیں.
شکل ثالث کے نتیجے دینے کی شرائط
اس کے نتیجہ دینے کی بھی دوشرطیں ہیں  :
            ۱ ۔ صغری کا موجبہ ہونا          ۲ ۔  دونوں مقدمات میں سے کسی ایک کاکلیہ ہونا ۔
شکل ثالث میں مذکورہ شرائط کے مطابق چھ ضروب نتیجہ دیتی ہیں  ۔
شکل رابع کے نتیجہ دینے کی شرائط
            شکل رابع کے نتیجہ دینے کی شرائط تفصیلا مطولات میں مذکور ہیں ۔ یہاں صرف مختصر ا ذکر کی جائیں گی ۔ 
۱ ۔  دونوں مقدمے موجبہ ہوں  ۔ ۲ ۔  صغری کلیہ ہو ۔ یا         ۱ ۔  دونوں مقدمات ایجاب وسلب میں مختلف ہوں ۲ ۔  دونوں مقدمات میں سے کوئی ایک کلیہ ہو ۔  مذکورہ شرائط کے مطا بق شکل رابع میں آٹھ ضروب نتیجہ دیتی ہیں ۔
امور نافعہ ضروریہ
(1)…حساس :  قوت باصرہ، سامعہ، ذائقہ، شامہ، لامسہ والا ۔
(2)…ناطق :  قوت فکریہ والا ۔
(3)…متحرک بالارادہ :  اختیاری حرکت والا ۔
(4)…صاہل :  ہنہنانے کی قوت رکھنے والا ۔
(5)…ناہق :  رینگنے کی قوت رکھنے والا ۔
(6)…نابح :  بھونکنے کی قوت رکھنے والا ۔
قیاس استثنائی
            وہ قیاس جس میں نتیجہ یا نتیجہ کی نقیض بعینہ مذکورہو، نیز اس میں حرفِ استثناء بھی مذکور ہو ۔ 
فائدہ :
            اس قیاس میں پہلا قضیہ شرطیہ اوردوسرا حملیہ ہوتاہے ۔  جیسے اِنْ کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ لٰکِنَّ الشَّمْسَ طَالِعَۃ، فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ ۔ 
وضاحت :
            اس مثال میں نتیجہ ’’فالنھار موجود‘‘ بعینہ قیاس کے مقدمات میں موجود ہے لہذا یہ قیاسِ استثنائی ہے.
قیاس استثنائی کی اقسام
اس کی دو قسمیں ہیں  :          ۱ ۔ اتصالی                       ۲ ۔  انفصالی
۱ ۔ قیاس اتصالی :
            وہ قیاس استثنائی جس کا پہلا مقدمہ شرطیہ متصلہ ہو  ۔ جیسے کُلَّمَا کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ لٰکِنَّ الشَّمْسَ طَالِعَۃ نتیجہ اَلنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ ۔
۲ ۔  قیاس انفصالی :
            وہ قیاس استثنائی جس کا پہلا مقدمہ شرطیہ منفصلہ ہو ۔ جیسے  ھٰذَالْعَدَدُ اِمَّازَوْجٌ أَوْفَرْدٌ لٰکِنَّہٗ زَوْجٌ  ۔ نتیجہ ھٰذَالْعَدَدُ لَیْسَ بِفَرْدٍ ۔
قیا س اتصالی میں نتیجہ نکالنے کاطریقہ :
            جب قیاس میں پہلا قضیہ متصلہ ہوتو اس کی دوصورتیں ہونگی ۔ 
            ۱ ۔  اگر عین مقدم کااستثناء کیاگیا ہوتو نتیجہ عین تالی ہو گا ۔  جیسے  اِنْ کَانِتَ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ لکِنَّ الشَّمْسَ طَالِعَۃٌ   اس کا نتیجہ ہو  گا أَلنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ ۔
            ۲ ۔  اگر نقیض تالی کا استثناء کیا گیا ہوتو نتیجہ نقیض مقدم ہوگا ۔  جیسے  اِنْ کَانَتِ الشَّمْسُ طَالِعَۃً فَالنَّھَارُ مَوْجُوْدٌ لکِنَّ النَّھَارَ لَیْسَ بِمَوْجُوْدٍ لہذا نتیجہ أَلشَّمْسُ لَیْسَ بِطَالِعَۃٍ  ہو گا ۔
قیاس انفصالی میں نتیجہ نکالنے کاطریقہ :
            جب قیاس کاپہلا قضیہ شرطیہ منفصلہ حقیقیہ ہو تواس کے نتیجہ کی مندرجہ ذیل چار صورتیں ہونگی ۔
            ۱ ۔  اگر عینِ مقدم کا استثناء کیا گیاہو تونتیجہ نقیض تالی ہو گا ۔  جیسے   ھٰذَالْعَدَدُ اِمَّا زَوْجٌ أَوْ فَرْدٌ لکِنَّہٗ زَوْجٌ  لہذا نتیجہ فَھُوَ لَیْسَ بِفَرْدٍ  ہوگا ۔ 
            ۲ ۔  اگر عینِ تالی کا استثناء کیاگیاہو تونتیجہ نقیض مقدم ہو گا ۔ جیسے  ھٰذَا الْعَدَدُ اِمَّا زَوْجٌ أَوْفَرْدٌ لکِنَّہٗ فَرْدٌ لہذا اس کا نتیجہ فَھُوَ لَیْسَ بِزَوْجٍ  ہو گا ۔ 
            ۳ ۔  اگر نقیض مقدم کا استثناء کیاگیا ہوتونتیجہ عین تالی ہوگا ۔ جیسے  ھٰذَا الْعَدَدُ اِمَّا زَوْجٌ أَوْفَرْدٌ لکِنَّہ لَیْسَ بِزَوْجٍ  لہذا اس کانتیجہ ھُوَ فَرْدٌ  ہوگا ۔
            ۴ ۔  اگرنقیض تالی کا استثناء کیاگیاہوتو نتیجہ عین مقدم ہوگا ۔ جیسے ھٰذَا الْعَدَدُ اِمَّا زَوْجٌ أَوْفَرْدٌ لکِنَّہ لَیْسَ بِفَرْدٍ  لہذا اس کانتیجہ ھُوَزَوْجٌ  ہوگا ۔
اگر قیاس انفصالی کا پہلا مقدمہ شرطیہ منفصلہ مانعۃ الخلو ہو :
            تو اس کا نتیجہ دوطرح سے ہوگا :
            ۱ ۔  اگر نقیض مقدم کااستثناء کیا گیا ہوتو نتیجہ عین تالی ہوگا ۔ جیسے  ھٰذَالشَّیُٔ اِمَّالاَشَجَرٌ أَوْلاَحَجَرٌ  لکِنَّہٗ لَیْسَ بِلاَ شَجَرٍ     لہذا نتیجہ ھُوَ لاَحَجَرٌ ہوگا  ۔
            ۲ ۔  اوراگر نقیض تالی کا استثناء کیاگیاہو تونتیجہ عین مقدم ہوگا ۔ جیسیھٰذَالشَّیُٔ اِمَّالاَشَجَرٌ أَوْلاَحَجَرٌ  لکِنَّہٗ لَیْسَ بِلاَحَجَرٍ   لہذا نتیجہ  ھُوَ لاَشَجَرٌہوگا ۔
اگر قیاس انفصالی کا پہلا مقدمہ مانعۃ الجمع ہو :
            تو اس کا بھی دوطرح سے نتیجہ ہوگا :
            ۱ ۔  اگر عین مقدم کااستثناء کیاگیا ہوتو نتیجہ نقیض تالی ہوگا ۔  جیسے ھٰذَالشَّیُٔ اِمَّا شَجَرٌأَوْحَجَرٌ لکِنَّہٗ شَجَرٌ لہذا اس کا نتیجہ ھُوَ لَیْسَ بِحَجَرٍ ہوگا ۔
            ۲ ۔  اگر عین تالی کا استثناء کیاگیاہوتو نتیجہ نقیض مقدم ہوگا ۔ جیسے ھٰذَالشَّیُٔ اِمَّا شَجَرٌ أَوْحَجَرٌ لکِنَّہٗ  حَجَرٌ   لہذا نتیجہ  ھُوَ لَیْسَ بِشَجَرٍ ہوگا ۔
استقراء وتمثیل
استقراء کی تعریف :
  استقراء کالغوی معنی تلاش کرنا، اصطلاحی معنی :  وہ حجت جس میں جزئی سے کلی پراستدلال کیاجائے ۔ 
وضاحت :
  اصطلاح منطق میں کسی کلی کی اکثر جزئیات کی تفتیش کر کے کسی خاص وصف کا حکم پوری کلی پر لگانا استقراء کہلاتا ہے ۔  جیسے ہم نے دیکھا کہ انسان، فرس ، غنم، وغیرہ چباتے وقت نیچے والاجبڑا ہلاتے ہیں توہم نے تمام حیوانوں پر حکم لگا دیا کہ ہرحیوان چباتے وقت نیچے والا جبڑا ہلاتاہے ۔ 
تمثیل کی تعریف :
  لغوی معنی :  تشبیہ دینا، اصطلاحی معنی :  وہ حجت ہے جس میں ایک جزئی کاحکم دوسری جزئی میں کسی  ’’علتِ مشترکہ‘‘ کی وجہ سے ثابت کیاجائے ۔
وضاحت :
  ایک جزئی میں کسی خاص علت کی وجہ سے ایک حکم پایاگیا ۔ وہی علت کسی دوسری جزئی میں نظر آئی تو اس ’’علت مشترکہ‘‘ کی وجہ سے پہلی جزئی کاحکم دوسری جزئی میں ثابت کردینے کا نام تمثیل ہے ۔  جیسے خمرایک جزئی ہے ’’علتِ نشہ‘‘کی وجہ سے اسکا حکم حرام ہوناہے یہی نشہ کی علت ایک دوسری جزئی ’’بھنگ‘‘ میں نظرآئی تواس ’’علت ِمشترکہ‘‘ کی وجہ سے حرام ہونے کا حکم بھنگ پر بھی لگادیا گیا ۔ 
            تمثیل میں چار چیزوں کا ہونا ضروری ہے  :
            ۱ ۔  مقیس علیہ (  جس پر قیاس کیا گیاہو)
            ۲ ۔  مقیس ( جس کو قیاس کیا گیا ہو)
             ۳ ۔  علت
            ۴ ۔ حکم ، مذکورہ مثال میں ’’ خمر‘‘ مقیس علیہ ۔  ’’بھنگ‘‘ مقیس ۔  ’’نشہ‘‘ علت ۔  اور’’حرام‘‘ ہونا حکم ہے ۔ 
نوٹ :
استقراء وتمثیل سے حاصل ہونے والا علم ظنی ہوتاہے ۔  استقراء سے اس لئے کہ  ممکن ہے اس کلی کی کوئی ایسی جزئی بھی ہو جس میں وہ خاص وصف نہ پایا جاتاہواوروہ ہماری تلاش میں نہ آئی ہو اور تمثیل سے اس لیے کہ ہوسکتاہے جس چیز کوحکم کیلئے علت قراردیاگیا ہے وہ علت نہ ہوبلکہ علت کوئی اور ہو ۔ 
مادہ کے اعتبار سے قیاس کی تقسیم …}
اس اعتبارسے قیاس کی پانچ قسمیں ہیں انہیں صناعاتِ خمسہ اور موادِاَقْیِسَہْ بھی کہاجاتاہے :
۱ ۔  برھانی            ۲ ۔  جدلی ۳ ۔  خطابی            ۴ ۔  شعری           ۵ ۔  سفسطی
۱ ۔  قیاس برھانی :
  وہ قیاس ہے جو مقدمات یقینیہ سے مرکب ہویعنی جویقین کا فائدہ دیتے ہوں ۔         جیسے :  أَلْعَالَمُ مُتَغَیَّرٌ وَکُلُّ مُتَغَیَّرٍحَادِثٌ فَالْعَالَمُ حَادِثٌ ۔
۲ ۔  قیاس جدلی :
  وہ قیاس ہے جو مقدمات مشہورہ یا مسلمہ سے مرکب ہویعنی جومشہور ہوں یا کسی ایک فریق کے نزدیک مسلّم ہوں  ۔ جیسے کسی کو بے گناہ قتل کرنا ظلم ہے اورہر ظلم واجب الترک ہے لہذا بے گناہ کو قتل کرنا واجب الترک ہے  ۔ شراب پینے سے اچھے برے کی تمییز نہیں رہتی ہروہ چیز جس سے اچھے برے میں تمییز نہ رہے اسے ترک کرنا واجب ہے لہذا شراب پینے کو ترک کرنا واجب ہے ۔
۳ ۔  قیاس خطابی :
   وہ قیاس جو مقدمات مقبولہ یا مظنونہ سے مرکب ہویعنی جن کے صحیح ہونے کا غالب گمان ہواور واعظین اپنے وعظوں میں استعمال کرتے ہوں  ۔ جیسے تجارت نفع بخش ہے اور ہر نفع بخش چیز کو اختیار کرنا چاہیے لہذا تجارت کو اختیار کرنا چاہیے ۔
۴ ۔  قیاس شعری :
  وہ قیاس جو قضایامخیلہ سے مرکب ہویعنی جو محض خیالی ہوں خواہ واقعتا سچے ہوں یا جھوٹے ۔ جیسے :  میرا محبوب چاند ہے اور ہر چاند عالم کو روشن کرتاہے لہذا میرامحبوب عالم کوروشن کرتاہے ۔ 
۵ ۔  قیاس سفسطی :
  وہ قیاس جو مقدمات وہمیہ کاذبہ سے مرکب ہویعنی جو محض وہمی اور جھوٹے ہوں لیکن سچے قضایا کے مشابہ ہوں  ۔ جیسے العقلُ موجودٌ  ۔ وکلُّ موجودٍ مشارٌالیہ ۔  فالعقلُ مشارٌالیہ ۔  اسی طرح انسان کی تصویر دیکھ کرکہنا ،  یہ انسان ہے  ۔ اور ہرانسان ناطق ہے ۔  لہذا یہ ناطق ہے ۔
قیاس برھانی کی اقسام
            قیاس برھانی کی دوقسمیں ہیں  :          
۱ ۔  دلیل لِمِّی                    ۲ ۔  دلیل اِنِّی
۱ ۔  دلیل لمی :
  جس قیاس میں حدِ اوسط نتیجے کے جاننے کیلئے علت بننے کے ساتھ حقیقت میں بھی نتیجے کیلئے علت ہواسے دلیل لمی کہتے ہیں  ۔ جیسے گھر میں آگ جل رہی ہے ۔  جہاں آگ جلتی ہے وہاں دھواں اٹھتاہے  ۔ پس گھر سے دھواں اٹھ رہاہے ۔  اس مثال میں آگ (جو حداوسط ہے ) سے ہمیں دھواں کے اٹھنے کا علم ہوا اسی طرح حقیقت میں بھی آگ دھواں کیلئے علت ہے لہذا یہ قیاس دلیلِ لمی ہے ۔ 
۲ ۔  دلیل انی :
  جس قیاس میں حد اوسط نتیجے کے جاننے کیلئے توعلت بن رہی ہو لیکن حقیقت میں وہ نتیجے کیلئے علت نہ ہو اسے دلیل انی کہتے ہیں  ۔ جیسے گھر سے دھواں اٹھ رہاہے جہاں دھواں اٹھتاہے وہاں آگ جلتی ہے ۔  پس گھر میں آگ جل رہی ہے ۔  اس مثال میں دھواں (جوحد اوسط ہے ) سے ہمیں آگ کے جلنے کا علم ہوا لیکن حقیقت میں دھواں آگ کے جلنے کی علت نہیں بلکہ معاملہ برعکس ہے یعنی آگ کا جلنا دھواں کیلئے علت ہے ۔  لہذا یہ قیاس دلیلِ انی ہے ۔ 
فائدہ :
  دلیل لمی وانی کی تعریف یوں بھی کی جاتی ہے  ۔ علت سے معلول کو سمجھنا دلیل لمی جبکہ معلول سے علت کو سمجھنا دلیل انی کہلاتاہے ۔  جیسے آگ سے دھواں کو سمجھنا دلیل لمی جبکہ دھواں سے آگ کو سمجھنا دلیل انی ہے ۔ 
قیاس کے قضایا کی اقسام
وہ قضایا جن سے مل کر قیاس بنتاہے ان کی دوقسمیں ہیں  :
۱ ۔  یقینیہ              ۲ ۔  غیر یقینیہ
قضایا یقینیہ کی اقسام
ان کی دوقسمیں ہیں  :
۱ ۔  بدیہیات        ۲ ۔  نظریات جوبدیہی طورپر یقین تک پہنچانے والے ہوں  ۔
قضایائے بدیہیہ کی اقسام
ان کی چھ قسمیں ہیں  :
۱ ۔ أَوَّلِیَات                      ۲ ۔ مُشَاہَدَات                 ۳ ۔  مُتَوَاتِرَات
۴ ۔  تَجْرِبَات         ۵ ۔  حَدْسِیَّات ۔                  ۶ ۔ فِطْرِیَّات
۱ ۔ اولیات :
  وہ قضایا بدیہیہ جن میں یقین محض تصور طرفین اورتصور نسبت سے حاصل ہو اور کسی واسطے یا دلیل کی ضرورت نہ ہو ۔  جیسے اَلْکُلُّ أَعْظَمُ مِنَ الْجُزْء (کل جز سے بڑا ہے )
۲ ۔  مشاہدات :
  وہ قضایا بدیہیہ جن کے متیقن ہونے کیلئے ’’حس ظاہر‘‘ یا’’ حس باطن‘‘ کا واسطہ بھی ضروری ہو ۔ جیسے أَلشَّمْسُ طَالِعَۃٌ ، أَنَا جَائِعٌ میں بھوکاہو ۔ 
وضاحت :
  أَلشَّمْسُ طَالِعَۃٌ   اس مثال میں آنکھ کے ذریعے ہمیں معلوم ہواکہ سورج چمکنے والا ہے یہ ظاہری حس کی مثال ہے اور انا جائع  میں بھوک کا حکم لگانا حس باطنی کی مثال ہے
فائدہ :
جن قضایا میں ’’حسِ ظاہر‘‘ کی ضرورت ہوتوان قضایا کو’’ حسیات ‘‘اور جن میں ’’ حسِ باطن‘‘ کی ضرورت ہو ا نہیں ’’وجدانیات‘‘ کہتے ہیں  ۔
۳ ۔ متواترات :
  وہ قضایا بد یہیہ جن کایقین ایسی جماعت کے خبر دینے سے حاصل ہوجن کا جھوٹ پر جمع ہونا عقلا محال ہو ۔ جیسے سرکار صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کاروضہ اقدس مدینہ منورہ  میں ہے ۔ 
۴ ۔  تجربیات :
  وہ قضایا بدیہیہ جن پر یقین باربار تجربہ کی بنا پر حاصل ہو اہو ۔  جیسے ڈسپرین سردرد کیلئے مفید ہے ۔ 
۵ ۔  حدسیات :
  وہ قضایا ئے بدیہیہ جن پر یقین کیلئے حدس بھی درکارہوحدس کا مطلب مبادی مرتبہ کا ذہن پر دفعتہ منکشف ہونا ۔ مثلا :   ادراک الاصوات بالسامعۃ، ادراک الالوان والاشکال بالباصرۃ ۔ آوازوں کا ادراک قوت سماعت سے اور رنگوں اور شکلوں کا ادراک قوت بصارت سے حاصل ہوتاہے  ۔
۶ ۔  فطریات :
  وہ قضایا بدیہیہ کہ جب وہ ذہن میں آئیں تو ساتھ ہی دلیل بھی ذہن میں آجائے ۔ جیسے اَلأَرْبَعَۃُ زَوْجٌ  ۔ اس قضیہ کے ذہن میں آتے ہی فورا دلیل بھی ذہن میں آجاتی ہے کہ چار دوحصوں میں برابر تقسیم ہوجاتاہے اورجو دوبرابرحصوں میں تقسیم ہوجائے وہ جفت ہوتاہے لہذا چار جفت ہے ۔
قضایا غیر یقینہ کی اقسام
ان کی سات قسمیں ہیں  :
۱ ۔ مُسَلَّمَات  ۲ ۔  مَشْہُوْرَات  ۳ ۔  مَقْبُوْلات       ۴ ۔  مَظْنُوْنَات
۵ ۔  مُخَیَّلات  ۶ ۔  مُشَبَّہَات  ۷ ۔  وَہْمِیَات
۱ ۔  مسلمات :
  وہ قضایا جو بحث کرنے والے دونوں فریقوں کے درمیان تسلیم شدہ ہوں ۔ جیسے :  اَلظُّلْمُ قَبِیْحٌ  ۔
۲ ۔ مشہورات :
  وہ قضایا جن میں کسی قوم کی را ئیں متفق ہوں  ۔ جیسے :  أَلاِحْسَانُ حَسَنٌ ۔ 
۳ ۔  مقبولات :
  بلند مرتبہ ہستیوں کے وہ اقوال جن کو لوگ’’ حسن ِظن‘‘ کی بناء پر قبول کرتے ہیں ۔ جیسے امیر اہلسنت شیخ طریقت رہبر شریعت بانی دعوتِ اسلامی  حضرت علامہ ومولانا
   یہاں زید پر چوری کا حکم ’’ظنِ غالب‘‘ کی وجہ سے لگایاگیا ہے یقین کی وجہ سے نہیں  ۔
۵ ۔ مخیلات :  ۔
   وہ قضایا کہ جن کی وجہ سے ذہن میں رغبت یا نفرت پیدا ہوتی ہو ۔  جیسے :  اَلْعَسَلُ حُلْوَۃٌ (شہد میٹھا ہے )  ۔
۶ ۔  مشبّہات :
   وہ قضایا جن میں محض صورۃً مشابہت کی بناء پر حکم لگایا جاتاہے  ۔ جیسے :  گھوڑے کی تصویر دیکھ کر کہا   ھٰذَا فَرَسٌ ۔
۷ ۔  وہمیات :
  وہ جھوٹے قضیے جس میں وہم ، غیر محسوس کو محسوس قیاس کرنے لگے  ۔ جیسے :  اَلْعَقْلُ مُشَارٌاِلَیْہٖ ۔
٭٭٭٭٭
خاتمہ
  اس سے مراد وہ آٹھ چیزیں ہیں جن کو متقدمین اپنی کتابوں کے شروع میں کسی علم کو مکمل طور پر سمجھنے اور طلباء میں شوق ورغبت بڑھانے کیلئے ذکر کرتے ہیں  ۔
(۱)…غرض علم :    یعنی علت غائیہ :  تاکہ بے کار چیز کو حاصل کرنا لازم نہ آئے ۔
(۲)…منفعت علم :   تاکہ علم کے حصو ل میں مشقتوں کا برداشت کرنا سہل ہوجائے ۔
(۳)…وجہ تسمیہ :   یعنی اس علم کا نام رکھنے کی وجہ مثلایہ بیان کرنا کہ علم منطق کو منطق کیوں کہاجاتاہے یا نحو کو نحو کیوں کہا جاتاہے ۔
(۴)…مؤلف :   یعنی کسی کتاب کی ابتداء میں اس کتاب کے مؤلف کاذکر کرنا تاکہ طالب علم اس کی شان و عظمت کی وجہ سے مطمئن ہوجائے ۔
(۵)…مرتبہ علم :   تاکہ معلوم ہوجائے کہ اس علم کو کس علم سے پہلے اور کس علم کے بعد پڑھا جائے ۔
(۶)…جنس علم :   یعنی یہ علم علوم عقلیہ میں سے ہے یا نقلیہ میں سے ، اصول سے ہے یا فروع سے ، تاکہ طالب علم وہی مسائل اس علم میں طلب کرے جو اس علم کے لائق ہے
(۷)…ابواب کتاب یا ابواب علم :  یعنی کسی علم میں کتاب کی تقسیم اور ابواب بندی ۔
(۸)…تعلیم کے طریقے :   یہ تقسیم، تحلیل، تحدیداور برہان کا نام ہیں ، تاکہ طالب علم جان سکے کہ کتاب ان طریقوں پر مشتمل ہے یا بعض طریقوں پر ۔

 

No comments:

Post a Comment