رجعت۔ سوال: رجعت کے بارے میں آپ کی کیا نظر ہے؟ کیا یہ اصول مذہب میں سے ہے؟

جواب: جو چیز صحیح اور متوتر روایات سےسمجھ میں آتی ہے اس کی بنیاد پر رجعت اصول مذہب میں سے ہے، لیکن اس کی تفصیلات پر عقیدہ رکھنا واجب نہیں ہے۔ بہتر ہے کہ رجعت کے بارے میں آئمّہ

علیہم السلام کی بعض روایات کی طرف اشارہ کیا جائے: حضرت امام باقر علیہ السلام نےسورۂ بقرہ کی 243 ویں آیت (ألم تر اِلی الذین خرجوا من دیارھم و ھم اُلوف حذر الموت فقال لھم اللہ موتوا ثمّ أحیاھم) ‘‘ کیا آپ نے ان لوگوں کے حال پر نظر نہیں کی جو موت کے ڈر سے ہزاروں کی تعداد میں اپنے گھروں سے نکلے تھے ؟ اللہ نے ان سے فرمایا: مر جاؤ، پھر انہیں زندہ کر دیا، ’’ کے بارے میں فرمایا: ‘‘ یہ افراد شام کے ایک شہر کے رہنے والے تھے جس میں ستّر ہزار گھر تھے۔۔۔خدا نے انہیں ماردیا اورپھر دوبارہ زندہ کردیا۔ ان میں سے بعض افراد ،دوسروں کو دیکھ رہے تھے جو اللہ کی تسبیح کررہے تھے۔(کافی،جلد8، صفحہ198 ،اور بحارالانوار،جلد14،صفحہ360)۔ اسی طرح سے سورۂ بقرہ کی 259ویں آیت جو رجعت واقع ہونے کے ایک مقام کو بیان کررہی ہے: ( أو کالذی مرّ علی قریۃٍ وھی خاویۃ علی عروشھا قال اَنّی یحییٰ ھذہ اللہ بعد موتھا فأماتہ اللہ مائۃ عام ثمّ بعثہ ) ‘‘یا اس شخص کی طرح جس کا ایک ایسی بستی سے گزر ہوا جو اپنی چھتوں کے بل گری ہوئی تھی تو اس نے کہا: اللہ اس (اجڑی ہوئی آبادی کو) مرنے کے بعد کس طرح دوبارہ زندگی بخشے گا؟ پس اللہ نے سو (١٠٠) برس تک اسے مردہ رکھا پھر اسے دوبارہ زندگی دی’’۔ اور اسی طرح امام علیہ السلام نے سورۂ عبس کی 22ویں آیت ( ثمّ اِذا شاءَ أنشرہ ) ‘‘پھر جب اللہ چاہے گا اسے اٹھا لے گا ’’ کی تفسیر میں فرمایا: رجعت کے وقت (زندہ کرے گا)۔ سورۂ انبیاء کی 95ویں آیت بھی رجعت پر دلالت کررہی ہے: ( و حرام علی قریۃٍ أھلکناھا أنّھم لایرجعون ) ‘‘اور جس بستی (کےمکینوں ) کو ہم نے ہلاک کیا ہے ان کے کے لیے ممکن نہیں کہ وہ (دوبارہ ) لوٹ کر آئیں’’۔ کیوں کہ کوئی بھی مسلمان قیامت کے دن تمام انسانوں ( چاہے وہ ہلاک ہوئے ہوں یا نہ ہوئے ہوں) کے پلٹنے کا منکر نہیں ہے، لہٰذا آیت میں ‘‘اس کے (مکینوں ) کے لیے ممکن نہیں کہ وہ (دوبارہ ) لوٹ کر آئیں’’ سے مراد، رجعت ہے۔ روایت میں آیا ہے کہ : ایک شخص نے امام صادق علیہ السلام سے کہا: اہل سنت کا یہ خیال ہے کہ آیۂ ( یوم نحشر من کلّ امّۃٍ فوجا ) نمل/83 ترجمہ‘‘اور جس روز ہم ہر امت میں سے ایک ایک جماعت کو جمع کریں گے’’ میں خدا کی مراد، قیامت کا دن ہے۔ امام علیہ السلام نے فرمایا: تو کیا خداوندعالم قیامت کے دن ہر امّت میں سے ایک گروہ کو اُٹھائے گا اور دوسروں کو یوں ہی مردہ چھوڑ دے گا؟! نہیں، ایسا نہیں ہے، اور یہ گروہ یا جماعت کی اُٹھایا جانا ( قیامت سے پہلے) رجعت میں ہے۔ اسی طرح سے امام صادق علیہ السلام نےسورۂ غافر کی 11ویں آیت ( قالوا ربّنا أمتّنا اثنتین و أحییتنا اثنتین) ‘‘(کافر) کہتے ہیں، اے خدا تو نے ہمیں دو بار موت دی اور دو بار زندہ کیا’’ کے بارے میں فرمایا: یہ رجعت ہے۔( بحارالانوار،جلد53، صفحہ56، روایت36 )۔ اور اسی طرح سورۂ دخان کی 10ویں آیت ( فارتقب یوم تأتی السماء بدخان مبین ) ‘‘پس آپ اس دن کا انتظار کریں جب آسمان نمایاں دھواں لے کر آئے گا’’ کے بارے مں امام نے فرمایا: یہ وہ دن ہوگا جب رجعت میں اُٹھائے جائینگے ۔(بحارالانوار،جلد53، صفحہ57، روایت35، باب29 )۔ امام رضاعلیہ السلام نے بھی مامون کے سوال ‘‘ رجعت کے بارے میں آپ کی نظر، کیا ہے؟’’ کے جواب مں فرمایا: ‘‘ رجعت حق ہے اور گذشتہ امّتوں میں رہی ہے۔۔۔’’۔( بحارالانوار،جلد25، صفحہ135، روایت6، باب4 )۔ سورۂ بقرہ کی تیسری آیت (الذین یؤمنون بالغیب) ‘‘جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں ’’ کی تفسیر میں، آیا ہے کہ غیب سے مراد، اُٹھایا جانا اور حضرت صاحب الزمان( عجّل اللہ تعالیٰ فرجہ الشریف ) کے زمانے مں رجعت ہے۔( بحارالانوار،جلد24، صفحہ351، روایت69)۔ ایسی روایات جن میں رجعت، سے متعلق ، آیات سے استدلال کیا گیا ہے، بہت زیادہ ہیں ۔( بحارالانوار،جلد53،باب28 اور29)۔

 

No comments:

Post a Comment