اسلام میں کتے کی نجاست

حجة الاسلام حسین الادری

مترجم : سید حسین حیدر زیدی

اس مقالہ میں مندرجہ سوالات کے جواب دئیے گئے ہیں ۔

کتا نجس ہے یا نہیں؟

اگر کتا نجس ہے تو پھر قرآن کریم میں اس کی نجاست کے متعلق کوئی بات ذکرکیوں نہیں ہوئی ہے؟

اگر ایسا ہے تو پھر فقہاء کتے کی نجاست کے حکم کو کس طرح سمجھتے ہیں ؟

کیا تمام کتے نجس ہیں، یہاں تک کہ وہ کتے جن سے مفید اور عقلائی کام لئے جاتے ہیں؟

حقیقت میں کتا کیوں نجس ہے ؟

کتے کے نجس ہونے کا اس کی خرید و فروخت کے حرام ہونے سے کیا رابطہ ہے؟

کیا کتے کو گھر میں رکھا جاسکتا ہے ؟

کیا کتے کو نجس سمجھنے کے ذریعہ ایک حیوان ہونے کے عنوان سے اس کے حقوق کو نظر انداز نہیں کیا جاتا ؟

اگر کتا نجس ہے تو پھر اصحاب کہف کا کتا کس طرح جنت میں داخل ہوگا؟

اس کو بات مدنظر رکھتے ہوئے کہ کتے کی وجہ سے انسان کو ٹیکا (انجکشن) لگایا جاتا ہے کیا اس کے بعد بھی کتے سے دوری کرنا ضروری ہے ؟

اسلام نے کتے کے چاٹے ہوئے برتن کو خاک سے دھونے کا حکم کیوں دیا ہے ،لیکن دوسری طرف کہا ہے کہ جس حیوان کے گوشت کو کتے نے شکار کیا ہے اس کو پانی سے دھونا کافی ہے ؟ کیا یہ تناقض گوئی نہیں ہے ؟

اس روایت ”انما لا تدخل الملائکة بیتا فیہ کلب“ میں کیا گھر سے مراد یہی گنہگار انسان کا تاریک جسم ہے ؟

کیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مکہ کے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا؟

کتے کی نجاست کا مسئلہ

کتے کی نجاست کا مسئلہ اسلام کے فقہی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے کہ آج کے معاشرہ میں اس کی کیفیت کے بارے میں اطلاعات حاصل کرنے کی بہت زیادہ اہمیت ہے ۔ بہت سے لوگ تحقیق و جستجو کی وجہ سے جاننا چاہتے ہیں کہ اسلام کتے کو نجس کیوں سمجھتا ہے ؟ اور ہمارے دینی متون کی کس آیت اور کس روایت میں کتے کے نجس ہونے کی علت بیان ہوئی ہے ؟ ان لوگوں کو اس حکم میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے اور یہ صرف کتے کی نجاست کے فلسفہ کے متعلق سوال کرتے ہیں، یہ لوگ جاننا چاہتے ہیں : کیا اسلام میں صرف کتے کی نجاست کا حکم بیان ہوا ہے یا اس کے علاوہ اس حکم کے فلسفہ کی طرف بھی کوئی اشارہ ہوا ہے ؟

بعض لوگ حیوانات کے حقوق کا دم بھرتے ہیں اور نجاست کے حکم کو کتوں کے حقوق کے خلاف سمجھتے ہیں ! ان کی نظر میں کتا ایک باوفا جانور ہے اور اسی کو اس کے پاک ہونے کی دلیل سمجھتے ہیں ، اس کے علاوہ اپنے سلیقہ کو بیان کرنے کے لئے بہت چھوٹی دستاویز سے استفادہ کرتے ہیں :

کیا کتا اتنی وفاداری کے باوجود نجس ہوسکتا ہے؟

قرآن و روایات میں کتے کی نجاست کے متعلق کوئی حکم نہیں بیان ہوا ہے ؟!

قرآن کریم نے اصحاب کہف کے کتے کا نام لے کر اس جانور کی تعریف کی ہے ؟!

حضرت علی (علیہ السلام) نے لوگوں کو کتے کی دس خصوصیات کی طرف اشارہ کیا ہے اور لوگوں کو ان خصائص کواستعمال کرنے کی نصیحت کی ہے !

اب معلوم نہیں ہے کہ قرآن کریم میں اصحاب کہف کے کتے کا نام لینا سے اس کی نجاست یا طہارت کا کیا رابطہ ہے ؟ کتے کی وفاداری اوراس کے مفید ہونے کا اس کے نجس نہ ہونے سے کیا ارتباط رکھتا ہے ؟ اور کس طرح امیرالمومنین علی (علیہ السلام)کے کلام سے اس کی طہارت کو حاصل کیا جاسکتا ہے ؟

اگر ایسا ہی تو کیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے اس قول سے جس میں آپ نے بدعت ایجاد کرنے والوں کو دوزخ کا کتا (۱) کہا ہے ، کتے کے نجس ہونے پر دلیل سمجھا جائے ؟! کیا اس طرح کی باتیں کہنا صحیح ہے ؟

جیسا کہ آپ نے ملاحظہ فرمایا شخصی سلیقہ کو مسائل سے متصل کرنا اور شخصی سلیقہ کو ثابت کرنے کے لئے تمام چیزوں سے ربط دینا خاص طور سے ان لوگوں کے لئے جن میں شرعی مسائل میں اظہار نظر کرنے کی صلاحیت نہیں پائی جاتی ، اس حدتک ہے کہ مسئلہ کی اصل اور بنیاد میں شک کرنے لگتے ہیں ۔

اگر کتے کا مفید ہونا اور وفادار ہونے اس کی طہارت کے حکم کے لئے کافی ہے تو خون کو نجس نہیں ہونا چاہئے کیونکہ خون کے کم ہونے کی وجہ سے انسان کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجاتا ہے ؟ کیا کسی کو خون کے فوائد اور انسان کو خون کی ضرورت اور اس کے نجس ہونے میں شک ہے ؟ کیا اس بہانہ سے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے ، خون کی نجاست کا انکار کیا جاسکتا ہے ؟

اس وقت ان باتوں کو بیان کرنے کا ہمارا کوئی ارادہ نہیں ہے اور آنے والی بحثوں کے ضمن میںان کی طرف اشارہ کریں گے ۔

اس مقالہ میں اسلامی مآخذ منجملہ قرآن کریم اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی روایات کی تحقق کے ذریعہ اس حکم کی دلیل کو تلاش کرنا چاہتے ہیں،اس کے بعد دوسرے چند مسئلوں کی طرف جو کہ کتے کی نجاست کے مسئلہ کی فرع ہیں ، اشارہ کریں گے ۔

مختلف طرح کے کتوں کی نجاست، اس کی خرید و فروخت، کتے کو گھر میں رکھنے ، ایک جانور کے عنوان سے کتے کے حقوق ، اسلام میں کتے کی نجاست کے فلسفہ جیسے مسائل اور آخر میں چند سوالوں کے جوابات بیان کریں گے ۔

لیکن اس سے پہلے ضروری ہے کہ نجس کے معنی اور مفہوم کو خصوصا اس کی فقہی اصطلاح میں بیان کیا جائے اور پھر اصل مسئلہ کو بیان کیا جائے ۔

نجس کا مفہوم

لغت میں نجس

لغویین کی نظر میں لفظ ”نجس“ ، کثیف، ناپاک، طہارت کی ضد ، صفائی کی ضد اور پلیدی کے معنی میں بیان ہوا ہے (۲) ۔

لغت میں بہترین تعریف راغب اصفہانی نے بیان کی ہے انہوں نے نجس کو ظاہری اور باطنی پلیدی کے معنی میں بیان کیا ہے اور لکھا ہے : ”النجاسة القذارة و ذلک ضربان : ضرب یدرک بالحاسة و ضرب یدرک بالبصیرة ․․․․“ ۔ نجاست ، گندگی اور کثافت ہے اور اس کی دو قسمیں ہیں :

۱۔ ایک وہ ہے جس کو انسان اپنے حواس سے درک کرسکتا ہے ۔

۲۔ ایک وہ ہے جو بصیرت کی آنکھوں سے دکھائی دیتا ہے ۔

یعنی کبھی کسی چیز کواس کی باطنی پلیدی کی وجہ سے نجس سمجھا جاتا ہے اور یہ انسان کی روح اور نفسیات پر منفی اثر چھوڑتی ہے ۔ راغب اصفہانی نے دوسرے معنی کو ذکر کرتے ہوئے اس کے مصادیق کو بیان کیا ہے اور کہا ہے : ”والثانی : وصف اللہ تعالی بہ المشرکین فقال : انما المشرکون نجس ․․․․“(۳) خداوند عالم نے مشرکین کی اس سے متصف کیا ہے اور فرمایا ہے : ” مشرکین نجس ہیں “ (۴) ۔

فقہی اصطلاح میں نجس

اسلامی فقہ میں نجس اس چیز کو کہا جاتا ہے جس کی پلیدی کی شدت کی وجہ سے اس سے دوری کرنا ضروری ہے اوراس سے دوری اور پرہیز کرنے کو شرع نے بیان کیا ہے مثلا : جو پانی عین نجاست سے مل گیا ہو وہ پینے کے قابل نہیں ہے اوراس سے وضو اور غسل نہیں کیا جاسکتا، اور جو لباس نجس ہوگیا ہے اس سے نماز نہیں پڑھی جاسکتی وغیرہ ۔

پس فقہ میں نجس کے معنی یہ ہیں جس چیز میں پلیدی کی شدت زیادہ ہوتی ہے اس سے مخصوص طریقہ سے دوری کی جاتی ہے اوراس سے پرہیزکرنے کے طریقہ کو شریعت مشخص کرتی ہے ، یادوسرے لفظوں میں نجاست ایسی چیز ہے جس کو نماز ، طواف اور کھانے میںاستعمال کرنا دو طرح سے حرام ہے: ایک اس میں پلیدی کی شدت کی وجہ سے اور دوسرے اس سے دوری اور پرہیز کرنے کے حکم کی وجہ سے حرام ہے ۔

لفظ ”نجس“ اپنے ظہور اور تبادر کی وجہ سے اس معنی پر دلالت کرتا ہے ۔ شیخ طوسی (۵) ، طبرسی (۶) ، آیة اللہ حکیم(۷) ، راوندی (۸)،میرزا محمد مشہدی (۹) اور فخر رازی نے ”نجس“ کی تفسیر میں کہا ہے : ہمارے نزدیک کلمہ نجس کے معنی واضح ہیں اور وہ فقہی نجاست ہے (۱۱) ۔

بعض علماء کا عقیدہ ہے کہ ظہور اسلام کے بعد اس معنی میں لفظ نجس کا استعمال اس قدر ہوگیا جس کی وجہ سے یہ حقیقت شرعیہ کے ثابت ہونے کا سبب بن گیا ، یعنی اسلام کے بعد جب بھی یہ لفظ بغیر قرینہ کے استعمال ہوتا تھا تو اس سے یہی فقہی معنی مراد لئے جاتے تھے ، لغوی معنی مراد نہیں لئے جاتے تھے ۔ (جیسا کہ لفظ صلاة اسلام سے پہلے دعا کے معنی میں تھا اور اسلام کے بعد مخصوص حرکات جس کو نماز کہا جاتا ہے ، میںاستعمال ہونے لگا) یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ابن زہرہ (۱۲) اور راوندی (۱۳) کے علاوہ جو کہ اس کے متعلق حقیقت شرعیہ کے مدعی ہیں، شخ انصاری نے بھی لکھا ہے : لفظ نجس کے لئے حقیقت شرعیہ کے معنی میں کوئی شک کی گنجائش نہیں ہے ۔ اب جب کہ ایسا ہے تو واضح ہوجاتا ہے کہ اگر روایات میں لفظ نجس استعمال ہو تو ان دونوں معنی میں سے کس معنی میں ہوگا:

صرف پلیدی اور گندگی (لغوی معنی) ۔

مخصوص پلیدی کہ جس سے مخصوص طریقہ سے دوری کی جائے (فقہی معنی) ۔

اس کے علاوہ اور دوسری تعبیرات بھی موجود ہیں جن کے ذریعہ شارع ، فقہی نجاست کے معنی کا قصد کرتا ہے ، ان میں سے بعض تعبیرات یہ ہیں :

”لا تشرب منہ ، لا تتوضاء منہ ، لا تصل فیہ، یجتنب عنہ، اذا اصابہ یدک مع الرطوبة فطھرہ، صب علیہ الماء وغیرہ (۱۴) ۔

اس کو نوش مت کرو، اس سے وضو نہ کرو، اس میں نماز نہ پڑھو، اس سے پرہیز کرو، جب بھی بھیگا ہوا ہاتھ اس سے مس ہوجائے تو اس کو پاک کرو ، اس کے اوپر پانی ڈالو وغیرہ۔

نتیجہ یہ ہوا کہ جب بھی لفظ نجس اور اس کے مترادف دوسری تعبیرات ، اسلامی متون میں استعمال ہو تو اس سے نجاست کے فقہی معنی مراد ہیں ۔

قرآن کریم میں کتے کی نجاست

ہم نے اس سے قبل بھی کہا ہے کہ کتے کی نجاست کے مسئلہ میں پیش آنے والے سوالوں میں سے ایک سوال یہ ہے : کیا قرآن کریم میں جو کہ کامل ترین آسمانی کتاب ہے ،کتے کی نجاست کی طرف اشارہ ہوا ہے یا نہیں ؟

جواب : قرآن کریم میں تین جگہوں پر کتے کا ذکر ہوا ہے :

۱۔ اصحاب کہف کے کتے کا واقعہ : خداوند عالم نے سورہ کہف میں اصحاب کہف کے کتے کے متعلق اس طرح فرمایا ہے :

ان کے کتے نے غار کے دروازہ پر اپنے ہاتھوں کو پھیلا رکھا تھا (۱۵) ”وکلبھم باسط ذراعیہ بالوصید (۱۶) ۔

اس آیت میں کتے کی نجاست یا طہارت کے متعلق کوئی اشارہ نہیں ہوا ہے ، اس آیت سے صرف یہ استفادہ ہوتا ہے کہ اصحاب کہف کے ساتھ نگہبانی کرنے والا کتا تھا ۔

کتا غار کے دروازہ پر یعنی اصحاف کہف کی استراحت کی جگہ کے علاوہ دوسری جگہ پر بیٹھا ہوا تھا ”بالوصید“ (۱۷) ۔ یہاں پر جو بات قابل توجہ ہے وہ کتے کو ساتھ رکھنے کا مسئلہ ہے جس کے متعلق ذیل میں کتے کو گھر کی نگہبانی کے عنوان سے بیان کریں گے (کہ نگہبانی کرنے والے کتے کو حفاظت کیلئے رکھنے میں کوئی اشکال نہیں ہے ) ۔

۲۔ بلعم باعورا کا واقعہ : خداوند عالم نے سورہ اعراف میں بلعم باعورا کو کتے سے تشبیہ دی ہے اور اس طرح فرمایا ہے : ”فمثلہ کمثل الکلب ان تحمل علیہ یلھث او تترکہ یلھث “ (۱۸)

اس آیت میں ایک عالم کی طرف اشارہ ہے جو شروع میں حق کے پراستہ پراس طرح گامزن تھا کہ کسی کو بھی اس کے منحرف ہونے کی توقع نہیں تھی ۔لیکن دنیا پرستی اور ہوائے نفس کی پیروی نے اس کو نیچے کی طرف اس طرح دھکیل دیا کہ اس کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے ۔ لیکن اسے کتے سے ہی تشبیہ کیوں دی ہے؟ کیونکہ اس پر ہوا پرستی کی شدت اور دنیا کی لذتوں کی تشنگی حد سے زیادہ بڑھ گئی تھی جس سے وہ ہواپرستی کی طرف جارہا تھا اور اس کو اس کی ضرورت نہیں تھی بلکہ بیماروں کی شکل میں ایک ”باولے کتے“ کی طرح ہوگیا تھا جیسے اس پر بیماریوں کی وجہ سے جھوٹی پیاس کاغلبہ ہوجاتا ہے اور وہ کسی بھی حالت میں سیراب نہیں ہوتا ہے (۱۹) ۔

اس آیت میں بھی نہ کتے کی طہارت کا تذکرہ ہے اور نہ ہی اس کے نجس ہونے کا ذکر ہے ۔

قابل توجہ بات یہ ہے کہ اگر پہلی آیت میں اصحاب کہف کا کتا اگر طہارت اور تعریف کے لائق ہے تو پھر اس آیت میں کتے کی ایک قسم کی مذمت اور پستی کو بیان کیا گیا ہے جس کی وجہ سے خداوند عالم نے ایک عالم کی حالت کو کتے کی ہوا پرستی سے تشبیہ دی ہے اوراس سے کتے کی نجاست پر استناد کیا جاسکتا ہے ! لیکن حقیقت یہ ہے کہ یہ دونوں باتیں بہت ہی سست اور باطل ہیں ۔

۳ ۔ شکاری کتے کے شکار کا حکم : خداوند عالم نے سورہ مائدہ کے شروع میں فرمایا ہے : ” یَسْئَلُونَکَ ما ذا اٴُحِلَّ لَہُمْ قُلْ اٴُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّباتُ وَ ما عَلَّمْتُمْ مِنَ الْجَوارِحِ مُکَلِّبینَ تُعَلِّمُونَہُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللَّہُ فَکُلُوا مِمَّا اٴَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَ اذْکُرُوا اسْمَ اللَّہِ عَلَیْہِ

پیغمبر یہ تم سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا حلال کیا گیا ہے تو کہہ دیجئے کہ تمہارے لئے تمام پاکیزہ چیزیں حلال ہیں اور جو کچھ تم نے شکاری کتوں کو سکھا رکھا ہے اور خدائی تعلیم میں سے کچھ ان کے حوالہ کر دیاہے تو جو کچھ وہ پکڑ کے لائیں اسے کھالو اور اس پر نام خدا ضرور لو۔

اس آیت میں اس جانور کے گوشت کے حلال ہونے کا تذکرہ ہے جس کو شکاری کتے نے شکار کیا ہے ،اس میں نہ کتے کی نجاست کا تذکرہ ہے اور نہ کتے کی طہارت کا ذکر ہے ۔ اگر چہ شکاری کتے کے ذریعہ شکار کئے گئے جانور کے گوشت کے حلال ہونے پر دلالت کرتی ہے اور روایات میں بھی بیان ہوا ہے کہ اس شکار کو اس جگہ سے دھو کر جہاں پر کتے کا منہ لگا ہے ، کھایا جاسکتا ہے ۔

یہ تینوں آیتیں وہ ہیں جن میں کتے کا تذکرہ ہوا ہے لیکن ان میں نہ کتے کی طہارت کا تذکرہ ہے اور نہ اس کی نجاست کا ذکر ہے ۔ اب جب کہ ثابت ہوگیا کہ قرآن میں کتے کی طہارت اور نجاست پرکوئی دلیل نہیں ہے تو کیا یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ کتا نجس نہیں ہے ؟

کیا تمام احکام ، قرآن کریم میں ذکر ہوئے ہیں؟

کیا کسی حکم کا صرف اس وجہ سے انکار کیا جاسکتا ہے کہ وہ قرآن کریم میں ذکر نہیں ہوا ہے ؟ (۲۱) ۔

کیا قرآن کریم میں کتے کے گوشت کے حرام ہونے کاذکر ہوا ہے ؟

کیا کسی کو کتے کے گوشت کے حرام ہونے میں شک ہے ؟ جب کہ سورہ انعام (۲۲) میں صرف چار محرمات کا تذکرہ ہوا ہے : ۱۔ مردار۔ ۲۔ خون ”دما مسفوحا“ ۔ ۳۔ سور کا گوشت۔ ۴۔ اور وہ جانور جو بتوں کے لئے ذبح ہوئے ہیں ”اھل لغیر اللہ بہ“ ۔ ان میں کتے کا گوشت نہیں ہے پس اس آیت کے مطابق اگر اس کو ذبح کرلیں توحلال ہے (۲۳) ۔ اس بناء پر کتے کی نجاست کا انکار کرنے والوں کو کتے کے گوشت کے کھانے کو بھی حلال سمجھ لینا چاہئے ، جب کہ سب اس کو حرام سمجھتے ہیں ۔

اس کا جواب یہ ہے :

۱۔ قرآن کریم نے عام طور سے فقہی احکام میں عام اصول بیان کرنے پراکتفاء کیا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ قرآن کریم اساسی قانون کی طرح ہے جس میں معاشرتی ،حقوقی اور جزائی قوانین کی فرع کو تلاش نہیں کیا جاسکتا ۔

۲۔ ان کی تفسیر اور وضاحت کو پیغمبر اکرم (صلی ا للہ علیہ و آلہ وسلم) اور آپ کے بعد ائمہ معصومین (علیہم السلام) کے حوالہ کردیا گیا ہے : ” وَ اٴَنْزَلْنا إِلَیْکَ الذِّکْرَ لِتُبَیِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَیْہِمْ“ (۲۴) ۔ اور آپ کی طرف بھی ذکر کو (قرآن)نازل کیا ہے تاکہ ان کے لئے ان احکام کو واضح کردیں جو ان کی طرف نازل کئے گئے ہیں ۔ اور خود قرآن کریم نے حکم دیا ہے کہ جو کچھ خداوند عالم نے قرآن کے علاوہ بیان فرمایا ہے اس میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ائمہ (علیہم السلام) کی اطاعت کریں : ”وَ ما آتاکُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوہُ وَ ما نَہاکُمْ عَنْہُ فَانْتَہُوا“ (۲۵) ۔ اور جو کچھ بھی رسول تمہیں دیدے اسے لے لو اور جس چیز سے منع کردے اس سے رک جاؤ۔

اگر پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) فرماتے ہیں : ”انی تارک فیکم الثقلین کتاب اللہ و عترتی اھل بیتی “ (۶۵) ۔ میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں امانت کے طور پر چھوڑے جارہا ہوں اور تم ان دونوں سے جدا نہ ہونا ”ان تمسکتم بھما لن یضلوا ابدا “ ۔ اگر ان دونوں سے تمسک کرو گے تو ہلاک ہوجاؤ گے ۔ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم)کے اس حکم کا راز یہ ہے کہ جن تمام چیزوں کی ہمیں ضرورت ہے وہ قرآن کریم کی نص اور ظاہر میں موجود نہیں ہے اور ہمیں قرآن کریم کے ساتھ ساتھ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ائمہ (علیہم السلام) کی رویات کو بھی مد نظر رکھنا چاہئے ، لیکن اگر یہ کہیں کہ ایک کو قبول کرتے ہیں اور کہیں ”حسبنا کتاب اللہ “ او رعترت کو چھوڑ دیں تو ہماری ہدایت کے لئے کوئی ضمانت نہیں ہے ان دونوں چیزوں کو ایک ساتھ رکھنا چاہئے تاکہ ہدایت تک پہنچ سکیں (۲۷) ۔

خلاصہ یہ ہے کہ حکم شرعی حاصل کرنے کیلئے قرآن کریم احکام الہی کو استنباط کرنے کا ایک مآخذ ہے ،ہماری آسمانی کتاب کے علاوہ معصومین (علیہم السلام) کی روایات بھی بھی ایک دوسرا مآخذ ہے کہ اگر قرآن کریم میں کوئی حکم موجود نہیںہے تو اس کے لئے روایات میں مراجعہ کریں ۔

روایات میں کتے کی نجاست

کتے کی نجاست کے حکم پر بہترین دلیل روایات ہیں ۔ اس سلسلہ میں بہت سی روایات ذکر ہوئی ہیں ، خاص طور سے وسائل الشیعہ اور بحار الانوار میں اس متعلق مختلف ابواب مختلف عناوین کے ساتھ موجود ہیں جیسے : «بَابُ نَجَاسَة سُؤْرِ الْکَلْبِ وَ الْخِنْزِیرِ»، «بَابُ طَهَارَة عَرَقِ جَمِیعِ الدَّوَابِّ وَ أَبْدَانِهَا وَ مَا یَخْرُجُ مِنْ مَنَاخِرِهَا وَ أَفْوَاهِهَا إِلَّا الْکَلْبَ وَ الْخِنْزِیرَ»، «بَابُ نَجَاسَة الْکَلْبِ وَ لَوْ سَلُوقِیّاً»، «بَابُ جَوَازِ لُبْسِ جِلْدِ مَا لَا یُؤْکَلُ لَحْمُهُ مَعَ الذَّکَاة وَ شَعْرِهِ وَ وَبَرِهِ وَ صُوفِهِ وَ الِانْتِفَاعِ بِهَا فِی غَیْرِ الصَّلَاة إِلَّا الْکَلْبَ وَ الْخِنْزِیرَ وَ جَوَازِ الصَّلَاة فِی جَمِیعِ الْجُلُودِ إِلَّا مَا نُهِیَ عَنْهُ»، «بَابُ کَرَاهَة اتِّخَاذِ کَلْبٍ فِی الدَّارِ إِلَّا أَنْ یَکُونَ کَلْبَ صَیْدٍ أَوْ مَاشِیَة أَوْ یُضْطَرَّ إِلَیْهِ أَوْ یُغْلَقَ دُونَهُ الْبَابُ»، «بَابُ تَحْرِیمِ بَیْعِ الْکِلَابِ إِلَّا کَلْبَ الصَّیْدِ وَ کَلْبَ الْمَاشِیَة وَ الْحَائِطِ وَ جَوَازِ بَیْعِ الْهِرِّ وَ الدَّوَابِّ» و ...

مذکورہ ابواب میں سے ہر باب میں وہ روایات موجود ہیں جو کتے کی نجاست پردلالت کرتی ہیں، جو شخص بھی دینی علوم سے بہت کم معلومات رکھتا ہوگا وہ ان عناوین کو دیکھنے کے بعد ان ابواب کی تمام روایات کا مطالعہ اور تحقیق کئے بغیراسلام میں کتے کی نجاست کے حکم پر یقین کرلے گا ۔

کتے کی نجاست کے سلسلہ میں پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور ائمہ معصومین (علیہم السلام) سے جو روایات ہم تک پہنچی ہیں وہ دو طرح کی ہیں :

پہلی روایات وہ ہیں جن میں صریح طور پر لفظ نجس بیان ہوا ہے جیسے :

1- «سَأَلَ عُذَافِرٌ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ (ع) وَ أَنَا عِنْدَهُ عَنْ سُؤْرِ السِّنَّوْرِ وَ الشَّاة وَ الْبَقَرَة وَ الْبَعِیرِ وَ الْحِمَارِ وَ الْفَرَسِ وَ الْبَغْلِ وَ السِّبَاعِ، یُشْرَبُ مِنْهُ أَوْ یُتَوَضَّأُ مِنْهُ؟ فَقَالَ: نَعَمِ، اشْرَبْ مِنْهُ وَ تَوَضَّأْ. قَالَ قُلْتُ لَهُ: الْکَلْبُ؟ قَالَ: لَا. قُلْتُ: أَ لَیْسَ هُوَ سَبُعٌ؟ قَالَ: لَا وَ اللَّهِ إِنَّهُ نَجَسٌ؟ لَا وَ اللَّهِ إِنَّهُ نَجَسٌ.»(۲۸) ۔

عذافر نے امام صادق (علیہ السلام) سے بعض جانوروں جیسے بلی، بھیڑ، بکری،گائے ، اونٹ ، گدھے ، گھوڑے ، خچر اور درندوں کے جھوٹے پانی کو پینے اور اس سے وضو کرنے کے متعلق سوال کیا ۔ امام (علیہ السلام) نے فرمایا : اس پانی کو پی بھی سکتے ہیں ا ور وضو بھی کرسکتے ہیں ، پھر میں نے کتے کے متعلق سوال کیا تو امام نے فرمایا : نہیں ۔ میں نے سوال کیا : کیا وہ ایک درندہ (دوسرے درندوں کی طرح )نہیں ہے؟ فرمایا : نہیں ، خدا کی قسم وہ نجس ہے ، نہیں خدا کی قسم وہ نجس ہے ۔

۲۔ عبداللہ بن ابی یعفور عن ابی عبداللہ (ع) قال : ان اللہ لم یخلق خلقا انجس من الکلب (۲۹) ۔

عبداللہ بن ابی یعفور نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے : یقینا خداوند عالم نے کسی بھی مخلوق کو کتے سے زیادہ نجس پیدا نہیں کیا ہے ۔

۳ ۔ عَنِ الْفَضْلِ أَبِی الْعَبَّاسِ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ(ع) عَنْ فَضْلِ الْهِرَّة وَ الشَّاة وَ الْبَقَرَة وَ الْإِبِلِ وَ الْحِمَارِ وَ الْخَیْلِ وَ الْبِغَالِ وَ الْوَحْشِ وَ السِّبَاعِ، فَلَمْ أَتْرُکْ شَیْئاً إِلَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ؛ فَقَالَ لَا بَأْسَ بِهِ؛ حَتَّى انْتَهَیْتُ إِلَى الْکَلْبِ، فَقَالَ رِجْسٌ نِجْسٌ (۳۰) ۔

فضل کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (علیہ السلام) سے جانوروں (بلی، بھیڑ بکری ، گائے اور اونٹ )کے بچے ہوئے جھوٹے پانی کے متعلق سوال کیا ، امام علیہ السلام نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے یہاں تک کہ میں نے کتے کے متعلق سوال کیا تو امام نے فرمایا : پلید اور نجس ہے ۔

۴۔ سَأَلَ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ(ع) عَنِ الْکَلْبِ؛ فَقَالَ: رِجْسٌ نِجْسٌ، لَا یُتَوَضَّأْ بِفَضْلِهِ، وَ اصْبُبْ ذَلِکَ الْمَاءَ وَ اغْسِلْهُ بِالتُّرَابِ أَوَّلَ مَرَّة ثُمَّ بِالْمَاءِ (۳۱) ۔

راوی نے امام صادق (علیہ السلام) سے کتے کی نجاست کا حکم پوچھا تو آپ نے فرمایا : پلید اور نجس ہے ،اس کے بچے ہوئے جھوٹے پانی سے وضو نہ کرو ، اس پانی کو گرادو اور برتن کو پہلی مرتبہ مٹی سے اور پھر پانی سے دھوؤ ۔

۵۔ عَنْ مُعَاوِیَة بْنِ شُرَیْحٍ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع) فِی حَدِیثٍ أَنَّهُ سُئِلَ عَنْ سُؤْرِ الْکَلْبِ یُشْرَبُ مِنْهُ أَوْ یُتَوَضَّأُ؟ قَالَ: لَا؛ قُلْتُ أَ لَیْسَ سَبُعٌ؟ قَالَ: لَا وَ اللَّهِ إِنَّهُ نَجَسٌ، لَا وَ اللَّهِ إِنَّهُ نَجَسٌ (۳۲) ۔

ابن شریح نے امام صادق (علیہ السلام) سے کتے کے جھوٹے پانی کے متعلق سوال کیا کہ کیا اس کو پیا جاسکتا ہے ، یا اس سے وضو کیا جاسکتا ہے ؟ آپ نے فرمایا : نہیں، راوی نے پوچھا : کیا وہ ایک درندہ (دوسرے درندوں کی طرح )نہیں ہے؟ فرمایا : نہیں ، خدا کی قسم وہ نجس ہے ، نہیں خدا کی قسم وہ نجس ہے ۔

۶۔ عَنْ أَبِی سَهْلٍ الْقُرَشِیِّ قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ(ع) عَنْ لَحْمِ الْکَلْبِ؛ فَقَالَ هُوَ مَسْخٌ. قُلْتُ: هُوَ حَرَامٌ؟ قَالَ: هُوَ نَجَسٌ؛ أُعِیدُهَا عَلَیْهِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، کُلَّ ذَلِکَ یَقُولُ هُوَ نَجَسٌ (۳۳) ۔

ابی سہل کہتے ہیں میں نے امام صادق (علیہ السلام) سے کتے کے گوشت کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اس کا شمارہ مسخ شدہ جانوروں میں ہوتا ہے ،میں نے کہا کیا یہ حرام ہے ؟ امام (علیہ السلام) نے فرمایا : نجس ہے۔ میں نے تین مرتبہ یہی سوال کیا اور امام نے تین مرتبہ فرمایا : نجس ہے ۔

جیسا کہ لغوی بحث میں گذر گیا ہے کہ لفظ نجس کے لئے حقیقت شرعیہ کے ہونے کی وجہ سے یہ روایتیں کتے کی نجاست کو ثابت کرنے کیلئے کافی ہیں اور صراحت کے ساتھ اس کو بیان کرتی ہیں ۔

دوسری روایات وہ ہیں جن میں لفظ نجس ذکر نہیں ہوا ہے ، لیکن ان میں موجوقرائن کے ذریعہ کتے کی نجاست ثابت ہوجاتی ہے ۔ ان روایات میں کتے سے برخورد کرنے پر اس روش کو بیان کیا گیا ہے جو دوسری نجس چیزوں سے ملاقات کرنے پر استعمال کرتے ہیں جیسے :

۱۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ: سَأَلْتُهُ عَنِ الْکَلْبِ‏ یَشْرَبُ مِنَ الْإِنَاءِ، قَالَ: اغْسِلِ الْإِنَاءَ (۳۴) ۔

ابن مسلم کہتے ہیں کہ میں نے امام صادق (علیہ السلام) سے سوال کیا : اگر کوئی کتا کسی برتن سے پانی پی لے تو اس کا وظیفہ کیا ہے ؟ آپ نے فرمایا : برتن کو دھونا ضروری ہے۔

۲۔ عن ابی عبداللہ (ع) قال اذا ولغ الکلب فی الاناء فصبہ (۳۵) ۔

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : جب بھی کتا کسی برتن سے پانی پی لے تو اس پانی کو دور پھینک دو ۔

۳ ۔ عَنْ أَبِی بَصِیرٍ، عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع)، قَالَ‏: لَیْسَ بِفَضْلِ السِّنَّوْرِ بَأْسٌ أَنْ یُتَوَضَّأَ مِنْهُ وَ یُشْرَبَ؛ وَ لَا یُشْرَبُ سُؤْرُ الْکَلْبِ إِلَّا أَنْ یَکُونَ حَوْضاً کَبِیراً یُسْتَقَى مِنْهُ (۳۶) ۔

ابی بصیر نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے : بلی کے جھوٹے پانی کو پی سکتے ہیں اور اس سے وضو کرسکتے ہیں ، لیکن کتے کے جھوٹے پانی کو نہیں پیا جاسکتا مگر یہ کہ کتے نے بڑی حوض سے پانی پیا ہو ۔

۴ ۔ عَنِ الْفَضْلِ أَبِی الْعَبَّاسِ، قَالَ قَالَ أَبُو عَبْدِ اللَّهِ(ع): إِنْ‏ أَصَابَ ثَوْبَکَ مِنَ الْکَلْبِ رُطُوبَة فَاغْسِلْهُ (۳۷) ۔

فضل نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے : جب بھی کتے کی کوئی رطوبت تمہارے لباس پر لگ جائے تو اس کو کپڑے کو دھوؤ ۔

۵ ۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ(ع) عَنِ الْکَلْبِ یُصِیبُ شَیْئاً (مِنْ جَسَدِ الرَّجُلِ)، قَالَ: یَغْسِلُ الْمَکَانَ الَّذِی أَصَابَهُ (۳۸) ۔

محمد بن مسلم نے امام صادق (علیہ السلام) سے اس کتے کے متعلق سوال کیا جس نے اپنے آپ کو کسی مرد کے بدن سے مس کردیا ہے ، آپ نے فرمایا : کتے سے مس ہونے والی جگہ کو دھولو ۔

۶ ۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ(ع) عَنِ الْکَلْبِ السَّلُوقِیِّ فَقَالَ إِذَا مَسِسْتَهُ فَاغْسِلْ یَدَکَ (۳۹) ۔

محمد بن مسلم کہتے ہیں : امام صادق (علیہ السلام) سے سلوقی (۴۰) کتے کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اگر تم نے اس کو لمس کیا ہے تو اپنے ہاتھ کو دھوؤ ۔

۷ ۔ عَنْ عَلِیٍّ (ع)... قَالَ: تَنَزَّهُوا عَنْ قُرْبِ الْکِلَابِ، فَمَنْ أَصَابَ الْکَلْبَ وَ هُوَ رَطْبٌ فَلْیَغْسِلْهُ؛ وَ إِنْ کَانَ جَافّاً فَلْیَنْضِحْ ثَوْبَهُ بِالْمَاءِ (۴۱) ۔

حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : کتوں سے نزدیک ہونے سے پرہیز کرے ، او راگر کوئی بھیگے ہوئے کتے سے مس ہوجائے تو اپنے لباس کو دھوئے اور اگر کتا سوکھا ہوا تھا تو اپنے لباس پر پانی ڈالے ۔

جیسا کہ آپ نے مذکورہ احادیث میں ملاحظہ کیا کہ کتے کے جھوٹے پانی سے وضو نہ کرنے اوراس کو نہ پینے کا حکم صراحت کے ساتھ بیان ہوا ہے اور یہ کتے کی نجس ہونے پر قرینہ ہے ۔ سادہ لفظوں میں اس طرح کہا جائے : ان تمام روایات میں لفظ نجس کو ذکر کئے بغیر کتے کے نجس ہونے کا حکم بیان ہوا ہے اور یہ حکم مختلف تعبیر کے ساتھ بیان ہوا ہے ۔

بہر حال کتے کی نجاست کو ثابت کرنے کیلئے صرف دوسری قسم کی روایات بھی کافی ہیں ، یہ حدیثیں اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کے معتبر اور قطعی ہونے پر کبھی بھی اعتراض نہیں کیا جاسکتا اور ان تمام دلیلوں کے ہوتے ہوئے کسی بھی مسلمان اور مومن کو اس میں کسی قسم کا کوئی شک و شبہہ نہیں ہوگا ۔

اور دوسری روایات بھی موجود ہیں جن کی طرف آئندہ بحثوں میں ا شارہ کیا جائے گا :

پہلی روایات وہ ہیں جو کتے کی خرید وفروخت کے قانون کو بیان کرتی ہیں ۔

دوسری روایات وہ ہیں جو کتے کو رکھنے کے متعلق وارد ہوئی ہیں ۔

تیسری روایات وہ ہیں جو ایک حیوان کے عنوان سے کتے کے حقوق کو بیان کرتی ہیں ۔

کتے کی نجاست پر فقہاء کا اجماع

شیعہ فقہاء کتے کو نجس سمجھتے ہیں اوران کے درمیان اس حکم پر اجماع ہے (۴۲) ۔

اسلامی مذاہب میں جو گروہ کتے کو نجس نہیں سمجھتا وہ صرف مالکی(اہل سنت کا ایک فرقہ) ہے ، ان کا عقیدہ ہ ے کہ کتے سے متعلق احکام و قوانین پر تعبدی صورت میں عمل کیا جائے ۔یہ فرقہ اگر چہ کتے کو نجس نہیں سمجھتا لیکن تعبدی اعتبار سے جس برتن کو کتا چاٹ لیتا ہے اس کو سات مرتبہ دھوتے ہیں ۔

شافعی اور حنبلی بھی کہتے ہیں : اس برتن کو سات مرتبہ دھویا جائے ، ایک مرتبہ اس کو مٹی سے دھویا جائے اور یہ لوگ مٹی سے دھونے کو چھے مرتبہ دھونے پر مقدم کرنا شرط نہیں سمجھتے ہیں (۴۳) ۔

محمد جواد مغنیہ نے اپنی کتاب ”الفقہ علی المذاھب الخمسہ“ میں اس طرح کہا ہے :

«الکلب نجس إلاّ عند مالک، ولکنّه قال: یغسل الإناء مِن ولوغه سبعاً، لا للنجاسة بل تعبداً. وقال الشافعیة والحنابلة: یغسل الإناء مِن ولوغ الکلب سبع مرات إحداهنّ بالتراب. وقال الإمامیة: غسل الإناء مِن ولوغ الکلب مرة بالتراب، ثُمّ بعدها مرتین بالماء» (۴۴) ۔

مختلف طرح کے کتوں کی نجاست

کتے کے نجس ہونے میں ان کی مختلف قسموں میں کوئی فرق نہیں ہے اورتمام کتوں کا حکم ایک ہے ۔ بعض علماء کا خیال ہے کہ صرف وہ کتے نجس ہیں جن کو گھر میں رکھنے سے منع کیا گیا ہے ، جیسے آوارہ کتے۔ لیکن جن کتوں کو نگہبانی ، شکار یا جن کتوں کو آج پولیس والے مدد کے لئے اپنے ساتھ رکھتے ہیں وہ سب پاک ہیں، ان کا یہ تصور صحیح نہیں ہے ، تمام اقسام کے کتے چاہے وہ شکاری ہوں یا بھیڑ بکریوں کے گلہ میں حفاظت کرنے والے ہوں ، سب کے سب نجس ہیں، ان کے منہ کا پانی ا ور ان کاتمام بدن نجس ہے ، یہ بات بھی ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی روایات سے ثابت ہے :

۱۔ عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ مُسْلِمٍ قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ(ع) عَنِ الْکَلْبِ السَّلُوقِیِّ فَقَالَ إِذَا مَسِسْتَهُ فَاغْسِلْ یَدَکَ (۴۵) ۔

محمد بن مسلم نے امام صادق (علیہ السلام) سے سلوقی کتے (ایک قسم کے مشہور شکاری کتے)کے متعلق سوال کیا تو آپ نے فرمایا : اگر تم نے اس کو لمس کیا ہے تو اپنے ہاتھ کو دھوؤ ۔

۲۔ عَنْ عَلِیٍّ(ع)... قَالَ تَنَزَّهُوا عَنْ قُرْبِ الْکِلَابِ فَمَنْ أَصَابَ الْکَلْبَ وَ هُوَ رَطْبٌ فَلْیَغْسِلْهُ وَ إِنْ کَانَ جَافّاً فَلْیَنْضِحْ ثَوْبَهُ بِالْمَاءِ (۴۶) ۔

حضرت علی (علیہ السلام) نے فرمایا : کتوں سے نزدیک ہونے سے پرہیز کرے ، او راگر کوئی بھیگے ہوئے کتے سے مس ہوجائے تو اپنے لباس کو دھوئے اور اگر کتا سوکھا ہوا تھا تو اپنے لباس پر پانی ڈالے ۔

قدیم زمانہ سے لے کر آج تک علماء اور فقہاء کا فتوی ہے کہ خشکی میں رہنے والے مختلف طرح کے تمام کتے نجس ہیں ، صرف شیخ صدوق (رہ) نے شکاری کتے کے متعلق فرمایا ہے : جس جگہ شکاری کتا مس ہوا ہے اس پر پانی چھڑک لینا کافی ہے اور دھونے کی ضرورت نہیں ہے (۴۷) ۔ اس کے باوجود وہ بھی کتے کو نجس سمجھتے ہیں ۔

اس بناء پر اگر شکاری کتا حلال جانور کا شکار کرے تو جس جگہ پر اس کا منہ لگا ہے اس جگہ کو دھونا ضروری ہے اور اگر انسان کا لباس ، بدن یا ہاتھ ، کتے کے بدن سے مس ہوجائے ، چاہے وہ شکاری کتا ہی کیوں نہ ہو اور کتے کا بدن یا مس ہونے والی جگہ بھیگی ہوئی ہو تو نجس ہوجاتا ہے (۴۸) ۔

کتے کی نجاست کا فلسفہ

جس طرح ائمہ معصومین (علیہم السلام) کی احادیث و روایات سے کتے کی نجاست ثابت ہوتی ہے اسی طرح اس حکم کے فلسفہ کو معلوم کرنے کیلئے معصومین (علیہم السلام) کی روایات میں مراجعہ کرتے ہیں ۔

احادیث کی تحقیق کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس حکم کی علت اور فلسفہ ذکر نہیں ہوا ہے اور صرف مطلق طور پر یہ بیان ہوا ہے کہ کتے سے پرہیز کرنا چاہئے ۔ لیکن اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ نجاست کا فلسفہ یا حکمت کا بیان نہ ہونا اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ اس حکم کی تشریع کے لئے کوئی حکمت موجود نہیں ہے ، اسلامی احکام کا ایک مسلم قاعدہ یہ ہے کہ شریعت کے احکام ، حقیقی مصلحت اور مفاسد کے تابع ہوتے ہیں ،اگر مصالح اور مفاسد نہ ہوں تو نہ کوئی حکم ہوتا ہے اور نہ کوئی نہی ہوتی ہے اور نہ نجاست اور طہارت کا کوئی حکم ہوتا ہے (۴۹) ۔ پس جیسا کہ امام رضا (علیہ السلام) نے اپنی ایک حدیث میں فرمایا ہے کہ جہاں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ شارع مقدس نے کسی عمل کو واجب کیا ہے تو ہم سمجھ جاتے ہیں کہ اس میں کوئی مصلحت ہے جس مصلحت کو بجالانا ضروری ہے ، اگرچہ ہم اس سے آگاہ نہیں ہوتے ہیں، اسی طرح اگر خداوند عالم یا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) اور معصومین (علیہم السلام) نے کسی عمل سے منع کیا ہے تو وہ یا کسی مفسدہ اور ضرر کی وجہ سے جس سے پرہیزکرنا لازم و ضروری ہے یا کسی مصلحت کی وجہ سے ہے جو اس عمل کو ترک کرنے میں پائی جاتی ہے ۔ جس طرح قوم یہود کو شنبہ کے روز مچھلیاں پکڑنے سے منع کیا گیا تاکہ وہ اس روز جو کہ ان کی چھٹی کا روزہے ، شکار نہ کریں اوراس دن کی عبادت کی رسومات کو انجام دیں (۵۰) ۔ جی ہاں ، خداوند عالم نے ان کو عبادت کی مصلحت کی وجہ سے مچھلیاں پکڑنے کو منع کیا ہے اور ضروری نہیں ہے کہ ہم یہ کہیں کہ اس روز مچھلیوں کے کھانے سے ضرر تھا اس وجہ سے یہ حکم بیان ہوا ہے ۔ کتے کی نجاست کا مسئلہ بھی ایسا ہی ہے ، ضروری نہیں ہے کہ ہم اس کے ضرر و نقصان جیسے خاص بیماری اور مرض کی طرف اشارہ کریں ، شاید اس کی مصلحت کوئی اور ہو جس کی وجہ سے یہ حکم بیان ہوا ہے اورہم اس سے بے خبر ہیں ۔ قرآن کریم ، یہودیوں کو بعض حلال چیزوں سے محروم کرنے کے متعلق اس طرح کہتا ہے : قوم یہود کے غلط کاموں کی وجہ سے بعض حلال اور پاک چیزوں کو ان پر حرام کردیا (۵۱) ۔ ”فَبِظُلْمٍ مِنَ الَّذینَ ہادُوا حَرَّمْنا عَلَیْہِمْ طَیِّباتٍ اٴُحِلَّتْ لَہُمْ وَ بِصَدِّہِمْ عَنْ سَبیلِ اللَّہِ کَثیراً “ (۵۲) ۔ پس ان یہودیوں کے ظلم کی بنا پر ہم نے جن پاکیزہ چیزوں کو حلال کر رکھا تھا ان پر حرام کردیا اور ان کے بہت سے لوگوں کو راسِ خدا سے روکنے کی بنا پریہ حکم نازل کیا ۔

یقینا یہاں پر حرام کرنے کی وجہ کوئی خاص مرض یا بیماری نہیں تھی ۔

اس بناء پر ہر امر و نہی کے پیچھے ایک مصلحت اور مفسدہ ہے جس کے متعلق بعض اوقات کم علمی کی وجہ سے اس کے مفسدہ اور مصلحت کو حاصل نہیں کرپاتے ،البتہ تعبدی طور پر اس کو قبول کرنا عقل کے منافی نہیں ہے ۔ جس طرح ہم ڈاکٹروں سے دوائیوں کی خصوصیات کے بارے میں سوال کئے بغیر ڈاکٹر کے احکام پر عمل کرتے ہیں اورکوئی بھی ہمیںاس عمل کی وجہ سے نادان نہیں کہتا ہے ،کیونکہ ہم نے ڈاکٹر کے علم اور مہارت پر اعتماد کیا ہے اور ہمیں معلوم ہے کہ وہ ہماری بہتری اور علاج کے علاوہ کچھ اور نہیں کرتا ہے ۔ دین کے احکام و قوانین بھی ایسے نسخے ہیں جن کو انبیائے الہی اور دینی راہنما ، خدا کی طرف سے بشر کی ہدایت کے لئے لائے ہیں اور بشر کی سعادت و خوشبختی کے علاوہ کوئی دوسری چیز مدنظر نہیں ہے ۔

البتہ ہم یہ نہیں کہتے کہ کوئی اس کے فلسفہ کے متعلق سوال نہ کرے یاتحقیق و جستجو نہ کرے بلکہ ہم کہتے ہیں کہ کبھی بھی اس بات کی توقع نہ رکھیں کہ بشری محدود معلومات کے ذریعہ تمام احکام و فلسفہ کے اسرار کو حاصل نہیں کیا جاسکتا ،کیونکہ یہ احکام اس جگہ سے وجود میں آئے ہیں جس کے علم کے سامنے آج کے تمام وسیع علوم ایک قطرہ سے زیادہ نہیں ہیں ۔

اس بناء پر اگر ہم تحقیق کریں اور کوئی خاص مطلب حاصل نہ ہو تو کبھی بھی اس حکم کو نظر اندازنہیں کرسکتے ، یا کہیں : اس حکم کا کوئی فائدہ اورمصلحت نہیں ہے ۔ کیونکہ ”کسی حکم کی مصلحت اور فلسفہ کو درک نہ کرنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کی کوئی مصلحت اور فلسفہ نہیں ہے “ ۔ اور کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بعض احکام کے فلسفہ کو ذکر نہ کرنے کا بھی کوئی فلسفہ اور مصلحت ہوتی ہے اورارادہ ہوجاتا ہے کہ مطیع اور فرمان بردار بندوں کو غیر مطیع بندوں سے پہچانا جائے ۔ کیونکہ خداوند عالم تغییر قبلہ (۵۳) کے واقعہ کے متعلق فرماتا ہے :

”وَ ما جَعَلْنَا الْقِبْلَةَ الَّتی کُنْتَ عَلَیْہا إِلاَّ لِنَعْلَمَ مَنْ یَتَّبِعُ الرَّسُولَ مِمَّنْ یَنْقَلِبُ عَلی عَقِبَیْہ“ (۵۴) ۔ اور ہم نے پہلے قبلہ کو صرف اس لئے قبلہ بنایا تھا کہ ہم یہ دیکھیں کہ کون رسول کا اتباع کرتاہے اور کون پچھلے پاؤں پلٹ جاتا ہے۔

دوسری عبارت میں یہ کہا جائے کہ کتے کی نجاست اعتباری ہے جس کو شارع مقدس نے نجس قرار دیا ہے اور اس پر کچھ احکام کو مترتب کیا ہے اوراس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ تکوین میں بھی کوئی خاص نجاست اس حیوان کے ساتھ ضروری ہے بلکہ اس کے معتبر ہونے کے دوسرے مصالح اور مفاسد ہوسکتے ہیں ۔

اس کے باوجود بعض لوگ دلسوزی کی وجہ سے کوشش کرتے ہیں کہ اس طرح کے فلسفہ کو بیان کرکے احکام الہی قبول کرنے کو آسان کردیں ۔ ان افراد نے کتے کی نجاست کے حکم کے لئے بہت سے فلسفہ بیان کئے ہیں جن کی طرف ہم یہاں پر اشارہ کرتے ہیں (اگر چہ ہم ان کی تائید نہیں کررہے ہیں اور جو کچھ نقل ہوا ہے اسی کو بیان کررہے ہیں ) ۔

۱۔ انسان اور کتے کے درمیان مشترک امراض اور جراثیم کی آلودگیوں سے بچنے کیلئے ۔

مثلا کہا جاتا ہے کہ کتے کی آنت (انتڑی) میں ایک چھوٹا سا چار میلی میٹر کا ایک کیڑا ہوتا ہے جس کا نام ”تینیا ایکینوسکوس“ ہے ۔ جب کتے کا پائخانہ باہر آتا ہے تو پائخانہ کے ساتھ اس کیڑے کے بہت سے انڈے بھی باہر آتے ہیں اور کتے کی پخایخانہ کرنے کی جگہ پر چپک جاتے ہیں ۔ کتا ان کو اپنی زبان کے ذریعہ جسم کے دوسرے حصوںپر پہنچا دیتا ہے اور تمام جگہ آلودہ ہوجاتی ہے ۔ اگر ان اندوں میں سے کوئی ایک انڈا انسان کے معدہ میں چلا جائے تو اس سے بہت سے امراض پیدا ہوجاتے ہیں جس کی وجہ سے موت بھی واقع ہوسکتی ہے (۵۵) ۔

یا کتے کی رال میں کچھ جراثیم ہوتے ہیں جو انسان کے لئے نقصان دہ ہوتے ہیں ۔ اسی وجہ سے دین اسلام میں حکم دیا گیا ہے کہ کتے کی رال سے آلودہ برتنوں کی طہارت کے لئے ان کو مٹی اور پانی سے دھونا چاہئے تاکہ اس کی آلودگیاں ختم ہوجائیں ۔

۲۔ کتے کی پلیدی سے دوری اور اس کاانسان کی روح اور نفسیات پر منفی اثر اور انسان کا انسانی مقامات سے پیچھے رہ جانا ۔

کبھی کبھی ضروری ہوتا ہے کہ مختلف جوانب سے احکام الہی کی طرف توجہ کی جائے ۔ ممکن ہے کہ فردی اعتبار سے ایک حکم کا فائدہ معلوم نہ ہو لیکن اس کے بہت سے عمومی فائدے موجود ہوں ،فرض کریں اسلام کہتا ہے کہ سونے اور چاندی کے برتنوں کا استعمال حرام ہے ۔ شاید اس حکم میں ذاتی کوئی مصلحت نہ ہو ، لیکن اس کام کے عمومی ہونے کی وجہ سے یہ مشکل پیش آئے گی کہ مملکت کی ثروت گھروں میں جمع ہوجائے گی جس کے نتیجہ میں تمام معاشرہ اور ملت کو اقتصادی نقصان ہوگا۔ اسی طرح اگر کسی کے پاس کھانا نہ ہو اور دوسرے لوگ سونے کے برتن میں کھانا کھا رہے ہوں تو طبقاتی اختلافات پیش آئیں گے اور اسی طبقاتی نظام اور اختلافات کو دور کرنے کیلئے اسلام نے زکات اور خمس کے واجب ہونے کو قانون کو پیش کیا ہے ۔

بسا اوقات ممکن ہے کہ ایک انسان کے لئے جسمی فائدہ نہ رکھتا ہو ، لیکن اس کے نفسیات کی تہذیب کرتا ہے مثال کے طور پر خاک پر پیشانی رکھنے سے شاید کوئی طبی فائدہ نہ ہو لیکن خداوند عالم کے سامنے انسان کے خلوص اور تواضع کو پرورش دیتا ہے اور تکبر و برتری کو اس سے دور کرتا ہے اور یہ خود ایک سب سے بڑی مصلحت اور فائدہ شمار ہوتا ہے ۔

کتے کی خرید و فروخت

اسلام میں کتے کی نجاست کے حکم کو بیان کرنے کے بعد یہ سوالات پیش آتے ہیں :

کیا ان کی خرید و فروخت جائز ہے یا نہیں ؟ اگر حرام ہے تو یہ حکم کتوں کی تمام قسموں کے لئے ہے یا بعض کتوں کے لئے ؟ ان تمام سوالات کے جواب حاصل کرنے کیلئے ایک مقدمہ بیان کرنا ضروری ہے ۔

معاملہ میں نجاست کی دخالت کا نہ ہونا

بعض علماء نے غلطی سے کتے کی خرید و فروخت کی حرمت کے لئے اس طرح استدلال کیا ہے :

حرام معاملات کی قسموں میں سے ایک قسم عین نجاست کا معاملہ ہے ، یعنی اگر کوئی چیز نجس ہے تو اس کا معاملہ کرنا حرام ہے ۔ جس وقت علماء کا نظریہ یہ ہے کہ کتا نجس ہے تو خود بخود اس کا معاملہ بھی حرام ہے لیکن اکثر علماء کا عقیدہ ہے کہ اگر عین نجاست کے معاملہ میں منفعت اور سود عقلائی پایا جاتا ہو تو اس کے متعلق حرمت کو اٹھا لیا جاتا ہے

خرید و فروخت کی حرمت کا حکم ، عقلائی فائدہ اور منفعت کے اوپر منحصر ہے ، نجس اور پاک کے اوپر منحصر نہیں ہے ۔ یعنی اگر کسی چیز میں عقلائی فائدہ ہے تو اس کا معاملہ جائز ہے ورنہ جائز نہیں ہے ،چاہے نجس ہو چاہے پاک ہو ۔ اس بناء پر کسی چیز کا نجس ہونا اس معاملہ کے حرام ہونے میں کوئی موثر نہیں ہے اور بہتر ہے کہ اس طرح کہا جائے : مبیع (بیچی جانے والی چیز) کے شرایط میں سے ایک شرط یہ ہے کہ اس میں عقلائی فائدہ پایا جاتا ہو یا دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ اس چیز میں مالیت پائی جاتی ہو اور چونکہ عین نجاست میں اکثر و بیشتر کوئی فائدہ نہیں پایا جاتا اور اس میں نہ ہی مالیت ہوتی ہے اور نہ ہی خرید و فروخت کی صلاحیت پائی جاتی ہے ۔ لیکن اگر اسی نجاست میں کوئی فائدہ پایا جاتا ہو تو یہ معاملہ صحیح ہے اور اس میں مالیت بھی پائی جاتی ہے اور خرید و فروخت کے قابل بھی ہے جیسے خون جو کہ نجس ہے لیکن اس سے آج عقلائی استفادہ ہوتا ہے اور مالیت بھی پائی جاتی ہے ، اس لئے اس کی خرید و فروخت جائز ہے ۔

پس یہ نہیں کہا جاسکتا کہ مردار، خون اور کتے کی خرید و فروخت ان کے نجس ہونے کی وجہ سے حرام ہے ۔ بلکہ کہا جاتا ہے : ان میں عقلائی فائدہ اور مالیت نہیں پائی جاتی اس لئے حرام ہے ، لیکن اگر فائدہ پایا جائے تو اس کا معاملہ جائز ہے (۶۱ ) ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ گذشتہ زمانہ میں اکثر و بیشتر نجاسات میں حلال فائدہ نہیں ہوتا تھا اور اسی وجہ سے علماء نے نجاسات کے معاملات کو حرام قرار دیا تھا۔ اور یہی بات سبب بنی کہ بعض لوگ تصور کریں کہ نجس چیز کی خرید و فروخت مطلق طور پر حرام ہے اور تحریم کی علت بھی نجاست کے علاوہ کچھ اور نہیں ہے ۔

خلاصہ یہ ہے کہ صرف نجس ہونا ،نجس معاملات کے حرام ہونے کا سبب نہیں ہے تاکہ کوئی یہ کہے : کیونکہ مختلف قسم کے کتے (شکاری، زینتی حفاظتی کتے) نجس ہیں لیکن شکاری کتے کی خرید و فروخت جائز ہے لیکن زینتی کتے کی خرید و فروخت حرام ہے کیونکہ یہاں پر ملاک و معیار عقلائی فائدہ اور عدم فائدہ ہے اور کوئی دوسر ی چیز نہیں ہے ۔

کتے کی خرید و فروخت کے متعلق روایات

روایات میں کتے کی خرید و فروخت سے منع کیا گیا ہے اور اس کی قیمت کو حرام (۶۲) بتایا گیا ہے جیسے :

۱۔ عن عبداللہ العامری ، قال سالت اباعبداللہ (ع) عن ثمن الکلب الذی لا یصید ، فقال : سحت ، و اما الصیود فلا باس (۶۳) ۔

امام صادق (علیہ السلام) سے ایسے کتے کی قیمت کے بارے میں سوال کیا گیا جو شکاری نہیں ہے ، آپ نے فرمایا : حرام ہے لیکن شکاری کتے کی قیمت لینے میں کوئی حرج نہیں ہے ۔

۲۔ عَنِ الرِّضَا(ع) فِی حَدِیثٍ قَالَ: وَ ثَمَنُ الْکَلْبِ سُحْتٌ (۶۴) ۔

امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا : کتے کی قیمت حرام ہے ۔

۳ ۔ عَنْ أَبِی بَصِیرٍ، قَالَ سَأَلْتُ أَبَا عَبْدِ اللَّهِ(ع) عَنْ ثَمَنِ کَلْبِ الصَّیْدِ؛ قَالَ: لَا بَأْسَ بِثَمَنِهِ وَ الْآخَرُ لَا یَحِلُّ ثَمَنُهُ (۶۵) ۔

ابی بصیر نے امام صادق (علیہ السلام) سے شکاری کتے کی قیمت کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے فرمایا : کوئی حرج نہیں ہے لیکن دوسرے کتوں کی قیمت لینا حلال نہیں ہے ۔

۴ ۔ فِی حَدِیثٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ(ص) قَالَ: ثَمَنُ الْخَمْرِ وَ مَهْرُ الْبَغِیِّ وَ ثَمَنُ الْکَلْبِ الَّذِی لَا یَصْطَادُ مِنَ السُّحْتِ (۶۶) ۔

رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ایک حدیث میں فرمایا : شراب ، زنا کار، اور اس کتے کی قیمت جو شکار نہیں کرتا ،حرام ہے ۔

۵۔ عَنِ الْحَسَنِ بْنِ عَلِیٍّ الْوَشَّاءِ، عَنِ الرِّضَا(ع) قَالَ سَمِعْتُهُ یَقُولُ: ثَمَنُ الْکَلْبِ سُحْتٌ وَ السُّحْتُ فِی النَّار)۶۷) ۔

امام رضا (علیہ السلام) نے فرمایا : کتے کی قیمت حرام ہے اور حرام چیز، جہنم میں ہے ۔

اکثر و بیشتر یہ روایات شکاری کتے کی طرف اشارہ کررہی ہیں ، لیکن دوسرے کتے جن سے عقلائی فائدہ ہوتا ہے وہ بھی اس کو شامل ہیں، جیسا کہ شیخ طوسی نے مبسوط (۶۸) میں بھیڑ بکریوں کے گلہ میں رہنے والے کتے اور نگہبانی کرنے والے کتے کو شکاری کتے کی طرح کہا ہے ((۶۹) ، ان روایات اورعلماء کے اقوال سے (جیسا کہ گذر گیا ہے ) استفادہ ہوتا ہے کہ جس کتے میں عقلائی فائدہ پایا جاتا ہے ا س کی خرید و فروخت جائز ہے ورنہ حرام ہے ،اگر زینتی کتوں اور آورہ کتوں کی خرید و فروخت خرام ہے تو اس کی وجہ یہ ہے کہ یا ان میں عقلائی فائدہ نہیں پایا جاتا یا ان میں کوئی خاص فائدہ نہیں پایا جاتا ہے ۔

کتے کو گھر میں رکھنا

کتے کے نجس ہونا کا مسئلہ اس کی حفاظت کے حرام ہونے کے علاوہ ہے۔ جن لوگوں کے لئے کتے کی حفاظت کے عقلائی فائدہ نہیں ہیں، ان کے لئے شدید کراہت ہے اور روایات میں اس کو ناپسندکام سمجھا گیا ہے (۷۰) ۔ اس بناء پر کتے کو نگہبانی،شکار اور آج کے زمانہ میں پلیس اور فوج کے پاس جو کتے ہوتے ہیں ان کے لئے رکھنے میں کراہت نہیں ہے ۔ (البتہ اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ کتا نجس نہیں ہے ) ۔

بعض روایات میں بیان ہوا ہے کہ جس گھر میں کتا ہوتا ہے اس میں ملائکہ داخل نہیں ہوتے ہیں، اور یہ کراہت سبب بن جاتی ہے کہ اس گھر میں نماز پڑھنا بھی مکروہ ہے (۷۱) ۔ ہم یہاں پر بعض ان روایات کو بیان کریں گے جن میں کتے کو گھر میں رکھنے کی کراہت کو بیان کیا گیا ہے :

۱۔ وَ قَالَ الصَّادِقُ(ع): لَا تُصَلِّ فِی دَارٍ فِیهَا کَلْبٌ إِلَّا أَنْ یَکُونَ کَلْبَ صَیْدٍ، وَ أَغْلَقْتَ دُونَهُ بَاباً، فَلَا بَأْسَ، وَ إِنَّ الْمَلَائِکَة لَا تَدْخُلُ بَیْتاً فِیهِ کَلْبٌ وَ لَا بَیْتاً فِیهِ تَمَاثِیلُ وَ لَا بَیْتاً فِیهِ بَوْلٌ مَجْمُوعٌ فِی آنِیَة (۷۲) ۔

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : جس گھر میں کتا ہو اس میں نماز نہ پڑھو ، مگر یہ کہ وہ کتا شکاری ہو اور اس کے سامنے سے دروازہ بند ہو تو اس صورت میں کوئی حرج نہیں ہے ۔اور ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتا ، مجسمہ اور ایسابرتن ہوتا ہے جس میں پیشاب کیا جاتا ہے ۔

۲۔ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ(ص): إِنَّ جَبْرَئِیلَ أَتَانِی فَقَالَ إِنَّا مَعْشَرَ الْمَلَائِکَة لَا نَدْخُلُ بَیْتاً فِیهِ کَلْبٌ وَ لَا تِمْثَالُ جَسَدٍ وَ لَا إِنَاءٌ یُبَالُ فِیه (۷۳) ۔

پیغمبر اسلام (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بیشک جبرئیل مجھ پر نازل ہوئے اور کہا : ہم ملائکہ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس گھر میں کتا، مجسمہ اور ایسا برتن ہوتا ہے جس میں پیشاب کیا جاتا ہے ۔

۳۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع): قَالَ یُکْرَهُ أَنْ یَکُونَ فِی دَارِ الرَّجُلِ الْمُسْلِمِ الْکَلْبُ (۷۴) ۔

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : مسلمان کے گھر میں کتے کا رہنا مکروہ ہے ۔

۴۔ عَنْ زُرَارَة عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ: مَا مِنْ أَحَدٍ یَتَّخِذُ کَلْباً إِلَّا نَقَصَ فِی کُلِّ یَوْمٍ مِنْ عَمَلِ صَاحِبِهِ قِیرَاطٌ (۷۵) ۔

زرارہ نے امام صادق (علیہ السلام) سے نقل کیا ہے : جو بھی کتے کو اپنے گھر میں رکھتا ہے اس کا عمل کم ہوتا چلاجاتا ہے ۔

۵۔ قَالَ أَمِیرُ الْمُؤْمِنِینَ(ع): لَا خَیْرَ فِی الْکَلْبِ‏ إِلَّا کَلْبَ الصَّیْدِ أَوْ کَلْبَ مَاشِیَة (۷۶) ۔

امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے فرمایا : کتے کو رکھنے میں کوئی خیر نہیں ہے صرف شکاری اور گلے کی حفاظت کرنے والے کتا کو رکھا جاسکتا ہے ۔

۶ ۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ: لَا تُمْسِکْ کَلْبَ الصَّیْدِ فِی الدَّارِ إِلَّا أَنْ یَکُونَ بَیْنَکَ وَ بَیْنَهُ بَابٌ (۷۷) ۔

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : شکاری کتے کواپنے گھر میں نہ رکھو مگر یہ کہ کتے کے اور تمہارے درمیان ایک دروازہ ہو (یعنی اس کے رہنے کی جگہ الگ ہو) ۔

۷۔ عَن أَبِی رَافِع قَالَ: جَاءَ جِبرَئِیل إِلَى النَبِی(ص) فَاستَأذَن عَلَیهِ- فَأذن لَهُ، فأبطأ، فأخذ رِدَاءَه فَخرجَ- فَقَالَ: قَد أذنا لَکَ- قَالَ: أَجل وَ لَکنا لا ندخل بَیتَاً فیه کَلب و لا صورة- فَنظروا فإذا فِی بَعضِ بُیُوتِهِم جرو (۷۸) ۔

ابو رافع سے نقل ہوا ہے کہ انہوں نے کہا : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کے پاس جبرئیل حاضر ہوئے اورداخل ہونے کی اجازت طلب کی ، رسول خدا نے ان کو ا جازت دی ،لیکن جبرئیل داخل نہیں ہوئے ، مجبورا رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے اپنی ردا سنبھالی اور باہر آئے اور فرمایا : ہم نے تمہیں اندر آنے کی اجازت دیدی ہے ؟ جبرئیل نے کہا : جی ہاں ، لیکن ہم فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جس میں کتا یا کوئی مجسمہ ہوتا ہے ۔ (گویا اس وقت رسول خدا (ص) کو اپنے گھر میں کتے کے موجود ہونے کی خبر نہیں تھی ) ۔ آپ نے گھر میں دیکھاتو وہاں پر کتے کا پلہ داخل ہوگیا تھا (۷۹) ۔

ان تمام روایات سے استفادہ ہوتا ہے کہ مفید کتوں جیسے نگہبانی کے کتوں کو گھر میں رکھنے میں کوئی کراہت نہیں ہے (۸۰) لیکن بہتر ہے کہ ان کے رہنے کی جگہ الگ ہو ، اس طرح کہ کم سے کم ان کے درمیان ایک دروازہ کا فاصلہ ہو یعنی کتے کے لئے الگ گھر بنایا جائے ۔

اوراگر بعض روایات میں مفید کتوں کو رکھنے سے منع کیاگیا ہے تو یہ اس صورت میں ہے جب ان کے رہنے کی جگہ الگ نہ ہو ۔ لیکن دوسرے کتوں کو رکھنے (شکاری اور نگہبانی کے کتے اور جن کتوں سے عقلائی کام لیاجاتا ہے) میں کراہت ہے اور ناپسند کام ہے ۔

البتہ کتے کی نجاست کے مسئلہ کو جو کہ پہلے بیان ہوچکا ہے ، مدنظر رکھتے ہوئے یہ حکم معقول ہے اور نجاست سے دور اختیار کرنے کے دین کے احکام اس کی تائید کرتے ہیں ، اگر چہ اسلام ، انسان کے فائدہ کے لئے مفید کتوں کو رکھنے کو مکروہ نہیں جانتا ہے ۔

یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ علامہ طباطبائی آخری روایت کے متن کو مضطرب اور اس کو مجعول روایات میں شمار کرتے ہیں (۱)لیکن وہ تمام روایات (جن میں کہا گیا ہے کہ جس گھر میں کتے ہوتے ہیںاس میں جبرئیل اور ملائکہ نازل نہیں ہوتے ) متضافر ہیں (۸۲) اس بناء پر یہ روایتیں کتے کو گھر میں رکھنے پر شدت کے ساتھ کراہت پر دلالت کرتی ہیں ۔

سگ بازی کی قباحت اور برائی

جو کچھ کہاگیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اسلام میں بغیر کسی عقلائی فائدہ کے کتے کو رکھنے اور اس سے اُنس ومحبت کرنے سے منع کیا گیا ہے بلکہ اس کی مذمت اور کراہت بیان ہوئی ہے ۔ معصومین (علیہم السلام) کی سیرت اور اقوال میں بھی سگ بازی کو غلط کام کہا گیا ہے اور کتوں سے کھیلنے والوں کی ملامت ہوئی ہے ۔

نقل ہوا ہے کہ جس وقت امام حسین (علیہ السلام) ،پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی قبر کے پاس بیٹھے ہوئے تھے تو قاصد آیا اوراس نے کہا : امیر نے آپ کو بلایا ہے ۔ لیکن چونکہ امام جانتے تھے کہ معاویہ مرگیا ہے اور یہ دعوت یزید کی بیعت کے لئے ہے لہذا آپ نے اس دعوت کو قبول نہیں کیا اور جس نے آپ سے یزید کی بیعت کا سوال کیا اس سے فرمایا : میں کبھی بھی یزید کی بیعت نہیں کروں گا ، کیونکہ یزید ایک فاسق انسان ہے جو کھلے عام اپنے فسق کو انجام دیتا ہے ، شراب پیتا ہے ، کتے سے کھیلتا ہے وغیرہ ۔ اور ہم رسول اللہ کے اہل بیت ہیں (۸۴) ۔

جی ہاں، امام (علیہ السلام) نے کتے سے کھیلنے کو ان موارد میں شمار کیا ہے جس سے یزید کا فسق آشکار ہوجاتا ہے ۔

ایک دوسری جگہ پر امام حسین (علیہ السلام) نے ایک خط میں معاویہ کو ملامت کی ہے اوراس طرح لکھا ہے : کیا تو وہ نہیں ہے جو ․․․ ایسے انسان کو حکومت پر بٹھانا چاہتا ہے جو شراب پیتا ہے اور کتوں سے کھیلتا ہے (۸۵) !

امام حسین (علیہ السلام) کے اس خط سے امیرالمومنین کا وہ خط یاد آجاتا ہے جو آپ نے منذر بن جارود کو لکھا تھا جو کہ آپ کی طرف سے اسلامی شہر کا گورنر تھا اور جب اس کی خیانت اور غلطیاں امیرالمومنین علی (علیہ السلام) کے پاس بھیجی گئی تو آپ نے ایک خط میں اس کو ملامت کرتے ہوئے اپنے پاس بلایا ۔ امام علی (علیہ السلام) نے اس کو خط میں اس طرح ملامت کی ہے :

تخرج لاھیا متنزھا، تطلب ، و تلاعب الکلاب“ ۔ خبر ملی ہے کہ تو ہمیشہ شکار (سیر وتفریح ) اور کتوں سے کھیلنے میں مشغول رہتا ہے (۸۶) ۔

امیرالمومنین علی (علیہ السلام) اورامام حسین (علیہ السلام) کے کلام میں غور و فکر کرنے سے کتوں کے ساتھ کھیلنے اورکتوں سے انس و محبت کرنے کی برائی واضح ہوجاتی ہے ۔

ایک جانور کے عنوان سے کتے کے حقوق

اسلام معتدل دین ہے ۔ اس اعتدال کو واضح طور پر اسلامی احکام میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے ،اگر چہ اسلام میں کتا نجس جانور ہے ،لیکن اس کی نجاست کی وجہ سے جانور ہونے کے اس کے حقوق کو نقض نہیں کیا گیا ہے ۔ کتے کے حقوق کی رعایت یہ نہیں ہے کہ اس کو ہاتھ لگایا جائے اور اس کو اپنا مونس اور کھیل کا سامان بنایا جائے ! بلکہ اس کو کھانا پانی دے کر اوراس کو اذیت نہ کرکے اس کے حقوق کی رعایت کی جائے ۔ جس طرح سے دوسرے تمام حیوانات کے حقوق کی رعایت کی جاتی ہے اور اسلامی روایات میں ان کو سیر کرنے اور ان کی پیاس کو بجھانے کی تاکید کی گئی ہے ۔

ہمارے بزرگ راہنما کتے کی نجاست کا عقیدہ رکھتے ہوئے اس پر ظلم کوروا نہیں سمجھتے اور اس کے لئے کچھ حق اور حقوق کے قائل ہیں ۔ اسلامی دانشوروں کے آثار کا مطالعہ کرنے سے اس کے حقوق واضح ہوجاتے ہیں ۔

فقہی کتابوں میں بیان ہوا ہے : اگر کسی شخص کے پاس وضو کرنے کی مقدار بھر پانی ہو اور اس کو یہ خوف ہو کہ اگر وضو کرے گا تو پیاسہ رہ جائے گا ،اس صورت میں اس پر واجب ہے کہ تیمم کرے اور پانی کو پینے کے لئے اٹھا کر رکھے ۔

صاحب جواہر (قدس سرہ) نے اس فتوی کونقل کرنے کے بعد لکھا ہے : ”و کذا الحیوان اذا کان کذلک و ان کان کلبا“ (۸۷) ۔ اگر کسی جانور کی پیاس کا خوف ہو تو بھی یہی حکم ہے ،چاہے وہ حیوان کتا ہی کیوں نہ ہو ۔

شہید ثانی نے کتاب مسالک میں کھانے پینے کی بحث میں لکھا ہے : و لو کان للانسان کلب غیر عقور جائع و شاة فعلیة اطعام الشاة“ (۸۸) ۔ اگر کسی کے پاس بھوکا کتا اور بھیڑ ہو تو اس پر واجب ہے کہ بھیڑ کو کھانا اور پانی دے یعنی کتے پر بھیڑ کو نجات دینا اولی ہے ۔ صاحب جواہر نے اس حکم میں شہید ثانی پر اعتراض کیا ہے اور کہا ہے : ”فیہ منع ، بل قد یقال باولویة الکلب لامکان ذبح الشاة بخلاف الکلب“ (۸۹) ۔ کتے کی جان بچانا اولویت رکھتا ہے کیونکہ بھیڑ کو ذبح کیا جاسکتا ہے لیکن کتے کے متعلق یہ کام ممکن نہیں ہے ۔ ان دونوں فقیہ کے کلام میں جانور کی جان بچانا حتی کہ کتے کی جان بچانا واجب ہے ، اگر چہ اس سلسلہ میں اختلاف اس بات پر ہے کہ کس جانور کی جان بچانا مقدم ہے (۹۰) ۔

اگر فقہائے اسلام اپنے فقہی نظریات میں جانوروں حتی کہ کتے کے حقوق کو اس طرح بیان کرتے ہیں تواس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اپنے نظریات کو معصومین (علیہم السلام) کی روایات سے لیا ہے ۔

ہمارے روائی متون میں بہت زیادہ ایسی روایات موجود ہیں جو کتے کے حقوق کی تائید کرتی ہیں ، بعض روایات میں کتے کو اذیت دینے سے منع کیا گیا ہے دوسری روایات میں کتے کو کھانے اور پانی دینے کی تاکید کی گئی ہے ۔ اس کے علاوہ اور بہت سی روایات ہیں جو کتے کے قاتل کو دیت دینے پر مجبور کرتی ہیں ، ان روایات سے بھی شاید کتے کے حقوق کو ثابت کیا جاسکتا ہے ، اگر چہ بعض علماء کا عقیدہ ہے کہ کتے کی دیت کی روایات اس جانور کے لئے کسی حق کو ثابت نہیں کرتی ہیں بلکہ صرف اس کے مالک کے نقصان کی تلافی کرتی ہیں (۹۱) لیکن تمام روایات کو مدنظر رکھتے ہوئے اس مطلب کے خلاف بات ثابت ہوتی ہے ،کیونکہ انسان کی دیت بھی اس کے ولی کو ادا کرتے ہیں لیکن اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ اس شخص کی خود کوئی ارزش او راہمیت نہیں تھی ۔ پس جب اسلام میں کتے کے لئے دیت مقرر کی گئی ہے تواس سے یہ نتیجہ نکالا جاسکتا ہے کہ اس حیوان کو ا سلام نے اہمیت دی ہے اوراس کے مالک کو دیت ادا کرنے کا مطلب یہی ہے کہ اس کی جو ارزش اور قیمت فوت ہوگئی ہے وہ واپس پلٹائی جائے ۔

بحث کے طولانی نہ ہونے کی وجہ سے ان تینوں قسم کی روایات کو اختصار کے ساتھ یہاں پر بیان کرتے ہیں :

۱۔ امیرالمومنین علی (علیہ السلام) نے پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے نقل کیا ہے کہ آپ نے فرمایا : ایاکم والمثلة و لو بالکلب العقور (۹۲) مثلہ (ٹکڑے ٹکڑے) کرنے سے پرہیز کرو (۹۳) چاہے وہ آزار پہنچانے والا کتا ہی کیوں نہ ہو ۔

۲۔ عَنْ نَجِیحٍ قَالَ رَأَیْتُ الْحَسَنَ بْنَ عَلِیٍّ(ع) یَأْکُلُ وَ بَیْنَ یَدَیْهِ کَلْبٌ کُلَّمَا أَکَلَ لُقْمَة طَرَحَ لِلْکَلْبِ مِثْلَهَا فَقُلْتُ لَهُ یَا ابْنَ رَسُولِ اللَّهِ أَ لَا أَرْجُمُ هَذَا الْکَلْبَ عَنْ طَعَامِکَ قَالَ دَعْهُ إِنِّی لَأَسْتَحْیِی مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَ جَلَّ أَنْ یَکُونَ ذُو رُوحٍ یَنْظُرُ فِی وَجْهِی وَ أَنَا آکُلُ ثُمَّ لَا أُطْعِمُه (۹۴) ۔

نجیح نے کہا ہے : میں نے حسن بن علی (علیہما السلام) کو دیکھا کہ آپ کھانا کھانے میں مشغول تھے اورایک کتا آپ کے سامنے کھڑا تھا ، آپ ایک لقمہ کھاتے تھے اورایک لقمہ کتے کو ڈالتے تھے ، میں نے عرض کیا : یابن رسول اللہ ! اس کتے کو آپ کے دسترخوان سے دور کردوں ؟ آپ نے فرمایا : اس کو چھوڑ دو کیونکہ مجھے خداوند عالم سے شرم آتی ہے کہ کوئی جاندار میری طرف دیکھے اور میں کھاتا رہوں اوراس کو نہ کھلاؤں ۔

۳۔ روى عن رسول الله(ص) انه قال: اطلعت لیلة اسرى بى على النار ... واطلعت على الجنة فرأیت امرأة مومة یعنى زانیة فسألت عنها فقیل انها مرّت بکلب یلهث من العطش فأرسلت ازارها فى بئر فعصرته فى حلقه حتى روى فغفرالله لها (۹۵) ۔

شیخ طوسی نے مبسوط میں لکھا ہے : رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) سے روایت ہوئی ہے کہ آپ نے فرمایا : شب معراج ․․․․ جنت کی اطلاع دی گئی ، وہاں پر میں نے ایک بدکارہ عورت کودیکھا ،اس کے بارے میں سوال کیا توجواب دیا گیا : اس کو اجر ملنے کا سبب یہ ہے کہ ایک روز اس کتا اس کے پاس سے گذرا جس کی زبان تشنگی کی وجہ سے باہر آگئی تھی ، اس نے اپنا لباس کنویں میں ڈالا اوراس سے پانی نکال کر کتے کے منہ میں ڈالا تاکہ وہ سیراب ہوجائے ،اس وجہ سے خداوند عالم نے اس کو معاف کردیا ۔

۴۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَال:َ دِیَة کَلْبِ الصَّیْدِ أَرْبَعُونَ دِرْهَماً وَ دِیَة کَلْبِ الْمَاشِیَة عِشْرُونَ دِرْهَماً وَ دِیَة الْکَلْبِ الَّذِی لَیْسَ لِلصَّیْدِ وَ لَا لِلْمَاشِیَة زَبِیلٌ مِنْ تُرَابٍ عَلَى الْقَاتِلِ أَنْ یُعْطِیَ وَ عَلَى صَاحِبِهِ أَنْ یقْبَل (۹۶) ۔

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : شکاری کتے کی دیت چالیس درہم ہے اورگلہ کی حفاظت کرنے والے کتے کی دیت بیس درہم ہے اور کتا نہ شکاری ہے اور نہ گلہ کا نگہبان ہے اس کی دیت خاک کی ایک زنبل هے۔

۵۔ مُحمَّد بنِ أَبِى نَصر عَن الرضَا(ع) فى قَولِ اللهِ عَزَّوجَلَّ (وَ شَروه بثَمَن بَخس دَرَاهم مَعدودة) قالَ: کَانَت عِشرینَ دِرهماً، و البَخس النَقص، و هِى قیمة کَلبِ الصیّد إذَا قتل کان قیمته(دیته (۹۷) ۔

محمد بن ابی نصر نے امام رضا (علیہ السلام) سے روایت کی ہے کہ آپ نے اس آیت ” و شروہ بثمن بخس دراھم معدودة“ کے متعلق فرمایا : بخس کے معنی کم اور ناچیز کے ہیں انہوں نے یوسف کو بیس درہم میں بیچا تھا اوریہ رقم، شکاری کتے کی قیمت ہے کہ جب بھی اس کو قتل کردیا جائے تو اس کے خون کی قیمت بیس

درہم ہیں ۔

۶۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ: فِی کِتَابِ عَلِیٍّ(ع): دِیَة کَلْبِ الصَّیْدِ أَرْبَعُونَ دِرْهَماً ،(۹۹) ۔

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا ہے : کتاب امام علی (علیہ السلام) میں شکاری کتے کی دیت چالیس درہم ہے ۔

۷۔ عَنْ أَبِی عَبْدِ اللَّهِ(ع) قَالَ: دِیَة کَلْبِ الصَّیْدِ السَّلُوقِیِّ أَرْبَعُونَ دِرْهَماً مِمَّا أَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ(ص) بِهِ لِبَنِی خُزَیْمَة (۱۰۰) ۔

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا : شکاری سلوقی کتے کی دیت چالیس درہم ہے جیسا کہ رسول خدا (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے بنی خزیمہ کو اس متعلق حکم دیا تھا ۔

اب جب کہ اسلام نے کتے کے حقوق کو ایک جانور کے عنوان سے قبول کیا ہے تو کسی کوحق نہیں ہے کہ وہ (کسی بھی عنوان کے تحت) بغیر دلیل کے کتے کو اذیت پہنچائے اوراس کی نجاست کی وجہ سے اس کے حقوق کی نفی اور اس کے پست ہونے کا قائل ہو ۔ دوسرے لفظوں میں یہ کہا جائے کہ کتا بھی خداوندعالم کی ایک مخلوق اور احترام کے قابل ہے ۔

چند سوالوں کے جوابات ؟

سوال : اگر کتا نجس ہے تو پھر اصحاب کہف کا کتا کس طرح جنت میں جائے گا ؟

جواب : کتے کی نجاست اعتباری ہے جس کو شارع مقدس نے نجس قرار دیاہے اوراس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ تکوین میں بھی کتا نجس خلق ہوا ہے ۔ اور جو چیز دنیا میں نجس ہے اس کا لازمہ یہ نہیں ہے کہ وہ آخرت میں بھی نجس ہوگی ،چونکہ طاہر ، نجس، حلال اورحرام تشریعی کا استعمال صرف اسی دنیا سے مربوط ہے اور دنیا و آخرت کے الگ الگ اپنے خاص قوانین ہیں، اور ان کے اندر ایک نظام معین ہے ۔ شریعت میں کتے پر نجاست کا حکم لگایا جاتا ہے لیکن تکوین کی نظر سے یہ نجس نہیں ہے ،اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے اصحاب کہف کے کتے کے جنت میں جانے اور دنیوی ظاہری نجاست کے درمیان کوئی تعارض نہیں ہے (۱۰۱) جس طرح شراب اور مردوں کے لئے سونے اور حریر کا لباس اس دنیا میں حرام ہے لیکن بہشت میں ان میں سے کوئی ایک چیز حرام نہیں ہے ، بلکہ اس کو بہشت کے اجر میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اس بات کی طرف بھی توجہ ضروری ہے کہ دنیا اور آخرت کے امور میں مقایسہ کرنا غلط ہے اور صرف تشبیہ کی حد تک اس طرح کا مقایسہ کیا جاسکتا ہے ۔

سوال : کیا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے مکہ کے کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا تھا ؟

جواب : یقینا پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے ان کتوں کو قتل کرنے کا حکم دیا ہے جو لوگوں کو اذیت و آزار دیتے تھے ،خصوصا آوارہ اور وحشی کتے جن سے لوگ ڈرتے تھے اور لوگوں کو اذیت ہوتی تھی ۔ اسی وجہ سے وسائل الشیعہ میں ایک باب ”باب جواز قتل کلاب الھراش“ کے عنوان سے موجود ہے (۱۰۲) ۔ اس باب میں ایک حدیث نقل ہوئی ہے کہ پیغمبر اکرم (صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے فرمایا : ”لا تدع ․․․ کلبا الا قتلتہ“ ۔ ایسے کتے کو آزاد نہ کرو بلکہ قتل کردو (۱۰۳) ۔ بحارالانوار میںبھی اسی مضمون کی ایک حدیث آئی ہے اور اس کے بعد مفید اور بے ضرر جیسے نگہبانی اور شکاری کتوں کو قتل کرنے سے منع کیا گیا ہے (۱۰۴) ۔ شارع کی طرف سے کتے کی دیت بھی (جیسا کہ اس سے پہلے گذر گیا ہے) بے ضرر اور مفید کتوں کو قتل نہ کرنے پر دلیل ہوسکتی ہے ۔

سوال : اسلام نے نجس برتنوں کو مٹی سے دھونے کا حکم کیوں دیا ہے ؟ لیکن دوسری طرف کہا ہے کہ شکاری کتے سے شکارکئے گئے جانور کے گوشت کو دھو کر کھا سکتے ہیں ؟ کیا یہ تناقض گوئی نہیں ہے ؟

جواب : مذکورہ سوال کا جواب دینے کے لئے بہتر ہے کہ سوال کودوسری طرح پیش کیا جائے اور وہ یہ ہے : کیا مٹی سے دھونے کا حکم اس برتن کے لئے ہے جس پر کتے کا منہ لگا ہو ، یا گوشت، پھل، دسترخوان، لکڑی، لباس وغیرہ کو بھی یہ حکم شامل ہے ؟

اس کا جواب یہ ہے کہ مٹی سے دھونے کا حکم صرف برتنوں سے مخصوص ہے اور دوسری چیزوں میں جیسے شکاری کتے کا جانور کے جسم پر منہ لگاکر پکڑنے وغیرہ میں صرف اس جگہ کو دھونا کافی ہے اور مٹی سے دھونے کی ضرورت نہیں ہے ۔

فقہی کتابوں میں ذکر ہوا ہے کہ اگر کتا کسی برتن سے کچھ کھا لے تواس کو مٹی سے دھو نا ضروری ہے اور فقہاء نے اس خاص حکم کو برتنوں کے موضوع میں قرار دیا ہے جیسے پیالہ، کوزہ، پلیٹ، سینی، دیگ اور اس کے جیسی چیزیں جن میں کھانا یا پانی استعمال کیا جاتا ہے (۱۰۵) ۔

اوراس کا ان سے کوئی ربط نہیں ہے بلکہ فقہاء نے اکثر و بیشتر فقہی کتابوں میں تطہیر کی بحث میں برتنوں کو دوسری چیزوں سے الگ کیا ہے اوران کا حکم بھی الگ بیان کیا ہے ۔ کیونکہ دوسری جگہوںپر بھی برتنوں کوپاک کرنے کا حکم دوسری چیزوں سے الگ ہے ۔ مثال کے طور پر نجس برتن کو پاک کرنے کے لئے اس کو قلیل پانی سے تین مرتبہ بھر کر اس پانی کو گرا دیں یا تین مرتبہ کچھ پانی برتن میں ڈال کر گھومائیں گے تاکہ نجس جگہ پر پہنچ جائے اور پھر اس کو باہر ڈالیںگے ،لیکن برتنوں کے علاوہ دوسری چیزوں کو پاک کرنے میں یہاں تک کہ اگر پیشاب سے نجس ہوا ہے تو اس کودومرتبہ دھوئیںگے اور اگر کسی اور چیز سے نجس ہوا ہے توایک مرتبہ دھونا کافی ہے (۱۰۶) ۔

یہ فرق تناقض کا سبب نہیں ہے بلکہ احکام اسلامی کی شقوق میںتنوع اور وسعت کو بیان کرتا ہے اور بسا اوقات حکم میں اس اختلاف سے حاصل ہوتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک کی کوئی مصلحت ہے جس کو علم بشری کو تلاش کرنا چاہئے ۔

اس کے علاوہ تناقض اس وقت پیش آتا ہے جب دونوں حکموں کا موضوع ایک ہو ، جب کہ یہاں پر موضوع متوقف ہے (ایک جگہ برتن ہے اور دوسری جگہ جانور کا وہ زخم جس پر کتے کا منہ لگا ہے ) اور موضوع میں یہ فرق حکم میں فرق کا سبب ہوا ہے جوکہ کامل طور سے عاقلانہ ہے اور اس میں کسی طرح کا کوئی تناقض نہیں پایا جاتا ،مثلا دو آدمیوں پر نماز ظہر واجب ہے ،لیکن ایک شخص پر چار رکعتی نماز واجب ہے اور دوسرے پر دو رکعتی (سفر میں) اور کوئی یہ نہیں کہہ سکتا اس میں تناقض ہے ۔

البتہ اس بات کی طرف توجہ ضروری ہے کہ یہ بات اس وقت وجود میں آتی ہے کہ بعض لوگوں نے تصور کیا ہے کہ برتنوں کو مٹی سے دھونے کی وجہ یہ ہے کہ اس کے جراثیم ختم ہوجائیں، اور اس کے بعد کہتے ہیں : جانور کے زخم کو جس پر کتے کا منہ لگا ہے ، متی سے دھونا اولی ہے کیونکہ شکار کا گوشت انسان کی غذا ہے اور بہتر ہے کہ اس کے جراثیم ختم ہوجائیں، یہ بات وہی قیاس ہے، دوسری بات یہ ہے کہ احادیث میں مٹی سے دھونے کی وجہ جراثیم کو ختم کرنا بیان نہیں ہوئی ہے تاکہ یہ بات صحیح ہو ، تیسرے یہ ہے کہ فرض کرلیں کہ برتنوں کو مٹی سے دھونے کی وجہ جراثیم کو ختم کرنا ہے تو شکاری کے گوشت میں صرف اس جگہ کو دھونے سے جراثیم ختم ہوسکتے ہیں ۔

اس روایت ”انما لاتدخل الملائکة بیتا فیہ کلب“ میں گھر سے مراد وہی گنہگار انسان کی ظلمانی جان ہے ۔

بعض علماء نے مذکورہ حدیث سے دوسری تعبیر بیان کی ہے اور وہ کہتے ہیں : گھر سے مراد (جس گھر میں کتا ہوتا ہے اس میں ملائکہ داخل نہیں ہوتے) وہی خود انسان کی جان ہے ، پس اگر انسان کی جان قرآن اور نیک اعمال سے مانوس ہوجائے تو وہ آسمانوں کی طرف عروج کرتی ہے ، لیکن اگر ان سے بیگانہ ہو تو باطن ظلمانی میں تبدیل ہوجاتی ہے اور اس میں شیاطین مستقر ہوجاتے ہیں ،اسی وجہ سے روایات میں ہے کہ اگر انسان دنیا میں ظالم ہو اور ظلم اس کی جان میں ملکہ کی حد تک پہنچ جائے تو وہ باطن میں کتا ہے (۱۰۷) ۔

اس تعبیر میں نفس امارہ کو کتے سے تشبیہ دی گئی ہے کہ جو انسان پر حملہ کرتا ہے :

اگر کتا تمہارے نفس پر حملہ کرے تو یہ تمہارے دشمنوں سے زیادہ بدتر ہے

اگر تم میں طاقت ہے تواپنے نفس سے جہاد کرو کیونکہ رسول خدا نے کہا ہے کہ جہاد بالنفس اکبر ہے (۱۰۸) ۔

یہ اخلاقی تعبیر اگر چہ خوبصورت ہے اور روایات نے اس کی تائید کی ہے لیکن یہ اس بات کا سبب نہیں بن سکتا کہ روایت اپنے ابتدائی اوراصلی معنی سے خارج ہوجائے ، بسا اوقات اگر ان روایات کی تحقیق کی جائے تو پہلے معنی کے علاوہ کچھ اور ذہن میں نہیں آئے گا، مثال کے طور پر مندرجہ ذیل روایت کی طرف توجہ کریں : وَ قَالَ الصَّادِقُ(ع): لَا تُصَلِّ فِی دَارٍ فِیهَا کَلْبٌ إِلَّا أَنْ یَکُونَ کَلْبَ صَیْدٍ وَ أَغْلَقْتَ دُونَهُ بَاباً فَلَا بَأْسَ وَ إِنَّ الْمَلَائِکَة لَا تَدْخُلُ بَیْتاً فِیهِ کَلْبٌ وَ لَا بَیْتاً فِیهِ تَمَاثِیلُ وَ لَا بَیْتاً فِیهِ بَوْلٌ مَجْمُوعٌ فِی آنِیَة

امام صادق (علیہ السلام) نے فرمایا جس گھر میں کتا ہے اس میں نماز نہ پڑھو ،لیکن اگر شکاری کتا ہو اور وہ اس کمرہ میں نہ آتا ہو تو کوئی حرج نہیں ہے ۔ یقینا جس گھر میں کتا ہوتا ہے اس میں ملائکہ داخل نہیں ہوتے وغیرہ ۔

مذکورہ حدیث میں جو تعبیر ” کَلْبَ صَیْدٍ» و «أَغْلَقْتَ دُونَهُ بَاباً“ ذکر ہوئی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے معلوم ہوتا ہے کہ کتے سے مراد وہی جانور ہے ، انسان کا ظلمانی نفس نہیں ہے ۔

بحث کا نتیجہ

خلاصہ یہ ہے کہ کتے کی نجاست کا مسئلہ ، اسلام کے فقہی مسائل میں سے ایک مسئلہ ہے اگر چہ قرآن کریم میں دوسرے بہت سے مسائل کی طرح اس کی طرف اشارہ نہیں ہوا ہے ،لیکن یہ حکم معتبر روایات میں صریح اور واضح بیان ہوا ہے ، بہر حال کتے کی نجاست اس کی خرید و فروخت کے حرام ہونے کے لئے سبب نہیں ہے کیونکہ معاملہ کی حرمت میں نجاست کا کوئی دخل نہیں ہے ،پس کتے کے وہ معاملات جن میں منفعت عقلائی نہیں پائی جاتی ، جائز نہیں ہیں، لیکن کتے کے نجاست کے فلسفہ کے متعلق معصومین (علیہم السلام) کی روایتیں مطلق تھیں اوراس کا حقیقی فلسفہ ہمارے لئے پوشیدہ ہے اورایک حکم کا فلسفہ نہ جاننا اس کے فلسفہ کو جاننے کے علاوہ ہے ۔

فهرست منابع

1. قرآن کریم.

2. نهج البلاغه.

3. طبرسی، ابو علی الفضل بن الحسن، مجمع البیان، تعلیق: ابوالحسن شعرانی، 10جلد، چاپ دوم: تهران، کتاب فروشی اسلامیة، 1380ق.

4. طوسی، ابو جعفر محمد بن حسن، التبیان فی تفسیر القرآن ، 10جلد، چاپ دوم بیروت، دار احیاء التراث العربی، بی تا.

5. آیت الله مکارم شیرازی، و همکاران، تفسیر نمونه، دارالکتب الاسلامیه قم، چاپ سی و دوم:1386.

6. رازی، فخر الدین، التفسیر الکبیر، 30جلد در15مجلد، چاپ اول:بیروت، دار الکتب الاسلامیة، 1411ق.

7. علامه طباطبایی، تفسیر المیزان، نشر دارالفکر، قم.

8. قرائتی، محسن، تفسیر نور، تهران، مرکز فرهنگی درسهایی از قرآن، چاپ یازدهم 1383.

9. حسین بن محمد راغب اصفهانی، المفردات فی غریب القرآن، قرن ششم، دمشق، دار العلم الدار الشامیة، چاپ اول 1412ق.

10. متقی هندی، کنز العمال، هجده جلد، چاپ دوم، انتشارات مؤسسة الرساله، بیروت 1409 هـ .ق.

11. زمانی ، محمد حسن، طهارت اهل کتاب و مشرکان، مرکز انتشارات دفتر تبلیغات اسلامی، چاپ: چاپخانه دفتر تبلیغات، اوّل/1378.

12. مشهدی، میرزا محمد، کنز الدقائق، 11جلد، چاپ اوّل: قم، موسسة النشر الاسلامی، 1411ق.

13. انصاری، شیخ مرتضی، الطهاره، چاپ چاپ سنگی:قم، موسسة آل البیت لاحیاء التراث، بی تا.

14. مروارید، علی اصغر، سلسلة الینابیع الفقهیة، 40جلد، چاپ اول: بیروت، موسسة فقه الشیعه و الدرالاسلامیة، 1410ق.

15. مصباح یزدی، محمدتقی، آذرخشی دیگر ازآسمان کربلا، انتشارات مؤسسه آموزشی و پژوهشی امام خمینی(ره)، چاپ اول، ۱۳۷۹.

16. شیخ حر عاملى، وسائل الشیعة، 29 جلد، مؤسسه آل البیت علیهم‏السلام قم، 1409 ق.

17. نجفی ، محمد حسن، جواهر الکلام، چاپ هفتم، بیروت، داراحیاء التراث العربى.

18. مغنیه، محمد جواد، الفقه المذاهب الخمسة، چاپ دهم/1429هـ، دار التیار الجدید، بیروت.

19. آیة الله حکیم، سید محسن، مستمسک العروة الوثقی، 14 جلد، چاپ نجف ، 1377 ق .

20. مطهری، مرتضی ، مجموعه آثار، انتشارات صدرا، چاپ پنجم، 1380 شمسی.

21. صدوق، شیخ محمد بن علی بن الحسین بن بابویه القمی، علل الشرایع، دو جلد، انتشارات دارالبلاغه.

22. پیام زن، پیاپی 104، ص 66-70 و 65، فارسی، کتابنامه: 65،کد پارسا: 33127A.

23. جمعی از نویسندگان، جامعه ایده‌آل اسلامی و مبانی تمدن غرب ـ.

24. انصارى، شیخ مرتضى، المکاسب، در یک مجلد، چاپ سنگى.

25. نجفی الخوانساری، موسى بن محمد، منیة الطالب فی شرح المکاسب،‍ تقریرات المحقق المیرزا محمد حسین النائیینى، موسسة النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین، الطبعة الاولى ـ قم.

26. السید محمد جواد العاملی، مفتاح الکرامة فی شرح قواعد العلامة، حققه وعلق علیه الشیخ محمد باقر الخالصی، مؤسسة النشر الاسلامی، طبع ونشر: الفقه، الطبعة: الاولى 1419 ه‍. ق. مؤسسة النشر الاسلامی التابعة لجماعة المدرسین بقم المشرفة.

27. الامام الخمینى (قدس سره)، المکاسب المحرمة، الناشر: مؤسسه اسماعیلیان: قم، الطبعة الثالثة 1410ه.ق.

28. علّامه حلّى، نهایة الاحکام، اسماعیلیان، قم.

29. معارف و معاریف، سید مصطفی حسینی دشتی، انتشارات اسماعیلیان.

30. محمّدباقر مجلسى، بحارالانوار،110جلد، موسسه الوفاء بیروت ـ لبنان،1404 ه ق.

31. شیخ صدوق، من لا یحضره الفقیه، 4جلد، انتشارات جامعه مدرسین قم، 1413ه ق.

32. ثقة الاسلام کلینی، الکافی، 8جلد، دارالکتب الاسلامیة، تهران، 1365ه ش.

33. جعفری، محمد تقی، رسائل فقهی، مؤسسه نشر کرامت،1377.

34. مسند امام رضا(ع)، تحقیق عطاردی، مشهد، آستان قدس، 1406 ه.ق.

35. علی ابن ابراهیم قمی، تفسیر قمى، قم، دارالکتب، چاپ چهارم 1367 ش.

36. محمدبن حسن طوسی (شیخ طوسی) المبسوط، مکتبه مرتضویه، تهران، 1378 ق .

37. الصدوق، ابن جعفر محمدبن علیبن الحسینبن بابویه القمی، الخصال، صحّحه و علّق علیه علی اکبر الغفاری، منشورات جماعة المدرسین، طبع شهریور 1362.

38. روزنه ای به سوی اسرار الهی، استاد توکل، ناشر: صبح پیروزی، نوبت چاپ: پنجم.

39. مهدی مهریزی و علی صدرایی خویی، میراث حدیث شیعه، موسسه فرهنگی دارالحدیث قم ، 1378ش.

40. موسوى همدانى، سید محمد باقر، ترجمه تفسیر المیزان‏، ناشر: دفتر انتشارات اسلامى جامعه‏ى مدرسین حوزه علمیه قم‏، مکان چاپ: قم‏،1374 ش‏، نوبت چاپ: پنجم‏.

41. آیة الله هاشمی شاهرودی، سید محمود، فرهنگ فقه، موسسه دائرة المعارف الفقه الاسلامی، ناشر: انتشارات موسسه دائرة المعارف فقه اسلامی، سال چاپ1387.

42. راوندی، سعید، فقه القرآن، چاپ شده در سلسلة الینابیع الفقهیة.

43. توضیح المسائل مراجع.

44. رساله توضیح المسائل امام خمینی (ره)

45. مجله المنار.

46. مجمع المسائل، حضرت آیة الله العظمى حاج سید محمد رضا گلپایگانى.

47. فصلنامه فقه اهل بیت(ع).

48. تمام نهج البلاغة، السید صادق الموسوی.

49. الأخبار الطوال، أبو حنیفة الدینوری، چاپ اوّل:1912م.

50. سیره معصومان، محسن امین، ترجمه علی حجتی کرمانی، انتشارات سروش، چاپ سوم 1376.

51. الإمامة والسیاسة، أبو محمد عبد الله بن مسلم ابن قتیبة الدینوری، تحقیق خلیل المنصور، دار الکتب العلمیة، چاپ 1418هـ - 1997م، بیروت.

 

حوالہ جات:

(1) ـ قال رسول الله (ص): اهل البدع کلاب اهل النار: بدعت گذاران سگ هاى دوزخند. (کنزالعمال، ج1 ،ح 1094 و 1125).

(2) ـ صفی پور، منتهی الارب فی لغة العرب،ص 1228: نجس ناپاک، پلید و خلاف طاهر. طریحی، مجمع البیان، ج4، ص11: نجس الشیء، اذا کان قذراً غیر نظیف. فیروز آبادی، القاموس المحیط، ج2ص253: النجس ضد الطاهر و زبیدی، تاج العروس من جواهر القاموس ج4ص255: النجس ضد الطاهر.

(3) ـ التوبة/28.

(4)ـ راغب اصفهانی، مفردات، حرف نون، لفظ نجس.

(5) ـ طوسی، تفسیر التبیان، ج5، ص234.

(6) ـ طبرسی، مجمع البیان، ج5، ص20.

(7) ـ سلسلة الینابیع الفقهیة، ج1، ص359 به نقل از فقه القرآن.

(8) ـ مستمسک عروة الوثقی، ج1، ص368.

(9) ـ کنز الدقائق، ج4، ص162.

(10) ـ تفسیر کبیر، ج16، ص24.

(11) ـ طهارت اهل کتاب و مشرکان، محمد حسن زمانی،ص184.

(12) ـ شیخ انصاری، الطهاره، ص325.

(13) ـ سلسلة الینابیع الفقهیة، ج1، ص359 به نقل از فقه القرآن.

(14) ـ طهارت اهل کتاب و مشرکان، محمد حسن زمانی،ص188.

(15) ـ نقش یک سگ نیز بر دیوار غار است، و بالاى غار، صومعه‏اى قدیمى است و مسلمانان نیز مسجدى ساخته‏اند. (تفسیر نور ج 07 ص143)

(16) ـ کهف/18.

(17) ـ «وَصِیْد» چنان که «راغب» در کتاب «مفردات» مى‏گوید: در اصل به معنى اطاق و انبارى است که در کوهستان براى ذخیره اموال ایجاد مى‏کنند، و در اینجا به معنى دهانه غار است . (تفسیر نمونه، ج‏12، ص406).

(18)ـ اعراف/ 176.

(19) ـ تفسیر نمونه، ج 7، ص 25.

(20) ـ مائده/4.

(21) ـ عدد رکعات نماز ـ دو رکعت صبح، چهار رکعت ظهر، چهار رکعت عصر، سه رکعت مغرب و چهار رکعت عشاء ـ در قرآن ذکر نشده است، با اینکه از مسلمات بوده و اختلافی در آن نیست.

(22) ـ انعام /145.

(23) ـ آذرخشی دیگر از آسمان کربلا، محمد تقی مصباح یزدی‏، ص53.

(24) ـ نحل/44.

(25) ـ حشر/7.

(26) ـ وسائل الشیعه ج 27 ص33.

(27) ـ آذرخشی دیگر از آسمان کربلا، مصباح یزدی‏، محمد تقی ص53.

(28) ـ وسائل‏الشیعة ج 1 ص 226.

(29) ـ وسائل‏الشیعة ج1 ص227.

(30) ـ وسائل‏الشیعة ج3 ص413.

(31) ـ وسائل‏الشیعة ج3 ص415.

(32) ـ وسائل‏الشیعة ج3 ص416.

(33) ـ وسائل‏الشیعة ج3 ص416.

(34) ـ وسائل‏الشیعة ج1 ص225.

(35) ـ وسائل‏الشیعة ج1 ص226.

(36) ـ وسائل‏الشیعة ج1 ص226.

(37) ـ وسائل‏الشیعة ج3 ص414.

(38) ـ وسائل‏الشیعة ج 3 ص 416.

(39) ـ وسائل‏الشیعة ج3 ص 416.

(40) ـ منسوب به محلّی.

(41) ـ وسائل‏الشیعة ج3 ص 417.

(42) ـ نجفی، محمد حسن، جواهر الکلام، ج 5، ص 366 – 368، چاپ هفتم، بیروت، داراحیاء التراث العربى.

(43) ـ الفِقه على المذاهِب الخمسَة، تألیف محمّد جَواد مغنِیّة، ص55.

(44) ـ همان.

(45) ـ وسائل‏الشیعة، ج3، ص416.

(46) ـ وسائل‏الشیعة، ج3 ص417.

(47) ـ با استفاده از مستمسک العروة الوثقی ,ج 1 ص 363.

(48) ـ توضیح المسائل مراجع , ج 1 ص 83 .

(49) ـ مجموعه آثار، مرتضی مطهری ، ج 20، ص52.

(50) - تفسیر نمونه، ج‏6، ص493.

(51) - به جلد سوم تفسیر نمونه صفحه 7 مراجعه کنید.

(52) - سوره نساء، آیه 160.

(53) ـ تفسیر نمونه، ج1، ص553.

(54) ـ بقره/143.

(55) ـ مجله المنار، سال ششم، ص307.

(56) ـ وسائل‏الشیعة ج : 1 ص : 227.

(57) - که برای ذوی العقول بکار می رود.

(58) ـ مجلّه پیام زن، پیاپی 104، ص 66-70 و 65: عصر جدید و روابط خانوادگی (قسمت اوّل)، احمد عابدینی.

(59) ـ برای اطلاع بیشتر به کتاب «جامعه ایده‌آل اسلامی و مبانی تمدن غرب»، نشر دبیرخانه دایمی اجلاس دوسالانه بررسی ابعاد وجودی حضرت مهدی(عج)،مراجعه نمایید.

(60) ـ شیخ صدوق، علل الشرایع، ج‏1، ص‏93.

(61) - چنانکه شیخ انصارى صرف نجاست را مانع جواز خرید وفروش و استفاده از آن نمی داند. ایشان در مسأله خرید و فروش شیر زن یهودى، معامله آن را جایز می داند و چنین مى نویسد: «فانّ نجاسته لاتمنع عن جواز المعاوضة علیه.» ( مکاسب، شیخ انصارى،ج1،ص35) مرحوم نائینی نیز صرف نجاست را مانع از خرید و فروش نمی داند و می گوید: پوست حیوان مرده را می توان در مواردی که طهارت شرط نیست مثل آبیاری کشتزارها ـ که در قدیم مرسوم بوده است ـ معامله کرد. ( «اذا فرض هناک منفعةٔ مهمةٔ عقلائیةٔ, ولم یتوقف استیفاء المنفعةٔ علی طهارةٔ الشیئی کالأستقاء بجلدالمیته للزرع ونحوه, فمجرد کونه نجساً لایمنع عن جواز بیعه.») منیهٔ الطالب), تقریر درسهای آیهٔ اللّه نائینی, مقرّر: شیخ موسی نجفی خوانساری, ج۱/۸.)) علاوه بر این شیخ انصاری، نیز معامله پوست مردار را با همین شرط پذیرفته و در نهایت می فرماید: «فمجرد النجاسهٔ لاتصلح علهٔ لمنع البیع: مجرد نجس بودن، نمی تواند مانع از خرید و فروش آن باشد.» ( مکاسب، شیخ انصاری، ج1، ص49.) بنابراین نمی توان گفت: سگ چون از نجاسات است، معامله اش اشکال دارد.

(62)ـ تأمین مال به کمک وسیله‏اى باطل، سحت شمرده شده است. «وفی الکافی، بإسناده عن السکونی عن أبی عبد الله قال: السحت ثمن المیتة و ثمن الکلب و ثمن الخمر- و مهر البغی و الرشوة فی الحکم و أجر الکاهن. أقول: ما ذکره فی الروایة إنما هو تعداد من غیر حصر، و أقسام السحت کثیرة کما فی الروایات، و فی هذا المعنى و ما یقرب منه روایات کثیرة من طرق أئمة أهل البیت علیهم السلام» (المیزان فی تفسیر القرآن، ج‏5، ص361.)

(63) - وسائل‏الشیعة ج17، ص119.

(64) - وسائل‏الشیعة ج17،ص 119.

(65) - وسائل‏الشیعة ج17،ص119.

(66) - وسائل‏الشیعة ج17،ص119.

(67) - وسائل‏الشیعة ج17،ص120.

(68) - وسائل‏الشیعة ج17،ص120.

(69) - امروزه سگهای «پلیس» و «امداد» نیز همین حکم را دارند.

(70) ـ معارف و معاریف، سید مصطفی حسینی دشتی، واژه سگ.

(71) - مرحوم علامه حلّی در کتاب منتهی می فرماید: نماز خواندن در خانه ای که در آن سگ باشد، کراهت دارد. (بحارالانوار، ج 62، ص 53. ـ توضیح المسائل مراجع، ج1، مسئله 105.)

(72) ـ من لا یحضره الفقیه، ج‏1 ، 246 ، باب المواضع التی تجوز الصلاة فیها و المواضع التی لا تجوز فیها ..... ص240.

(73) ـ الکافی، ج‏3 ، 393، باب الصلاة فی الکعبة و فوقها و فی البیع و الکنائس و المواضع التی تکره الصلاة فیها ..... ص 387.‏ الکافی، ج‏3 ، 395، باب الصلاة فی ثوب واحد و المرأة فی کم تصلی و صلاة العراة و التوشح ..... ص393ـ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار ،ج‏56، 177، باب 23 حقیقة الملائکة و صفاتهم و شئونهم و أطوارهم ..... ص144.

(74) ـ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج‏62، ص50 ـ وسائل‏الشیعة، ج 11 ،ص530.

(75) ـ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج‏62، ص50.

(76) ـ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج‏62، ص 53 ـ وسائل‏الشیعة، ج 11 ،ص530.

(77) ـ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج‏62، ص 53.

(78) ـ المیزان فی تفسیر القرآن، علامه طباطبایی، ج‏5، ص 209.

(79) ـ ترجمه المیزان، علامه طباطبایی، ج‏5، ص336و337.

(80) ـ مفتاح الکرامة 8/85 ـ کتاب المکاسب 1/ 197 ـ جواهر الکلام 22/138.

(81) ـ ترجمه المیزان، ج‏5، ص 337ـ المیزان فی تفسیر القرآن، ج‏5، ص210.

(82)ـ فصلنامه فقه اهل بیت فارسی، شماره 17 و 18، خرازی، سید محسن، حکم نقاشی و مجسمه سازی از نگاه شریعت.

(83) ـ شرح این مطلب در کتاب «انوار الاصول» آمده است. رجوع کنید به : انوار الاصول، ج 2، ص 486 .

(84) - الاخبار الطوال، ص 227.

(85)- الامامة والسیاسه، ج1، 203 و 204 و سیره معصومان، سید محسن امین، ترجمه: على حجّتى کرمانى، ج 4، ص 87.

(86)- تمام نهج البلاغه، ص 815 به نقل از تاریخ الیعقوبی ج 2 ص 203. و أنساب الأشراف، بلاذری ج 2 ص 163.

(87)ـ جواهرالکلام ، ج5/ ص114.

(88)ـ مسالک الافهام، ج2/ ص250.

(89)ـ جواهرالکلام، ج36/ ص437.

(90)ـ این مسئله در رسائل فقهی علامه جعفری نیز مطرح شده است. (جعفری، محمد تقی، رسائل فقهی، مؤسسه نشر کرامت1377، ج1، ص 119-118.)

(91)ـ انصاری، شیخ مرتضی، کتاب المکاسب، انتشارات علامه، ص 7، دو سطر به آخر.

(92)ـ نهج البلاغه، نامه 47.

(93)ـ قطعه قطعه کردن اعضای بدن.

(94]‏ـ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج‏43، باب 16، مکارم أخلاقه و عمله و علمه و فضله و شرفه و جلالته و نوادر احتجاجاته صلوات الله علیه، ص331.

(95)ـ المبسوط، شیخ طوسی، ج6، ص 47.

(96]‏ـ من لا یحضره الفقیه، ج‏4، باب نوادر الدیات، ص169.

(97) ـ در بعضی روایات «دیته» گفته شده.

(98) ـ مسند الإمام الرضا علیه السلام، ج‏1، 346، (سورة یوسف) ـ تفسیر قمّى، یوسف/ 20.

(99)ـ الخصال، ج‏2، دیة کلب الصید أربعون درهما، ص539.

(100)ـ الخصال، ج‏2، دیة کلب الصید أربعون درهما، ص539.

(101) ـ http://www.porseman.org.

(102) ـ سگان ولگرد.

(103) ـ وسائل‏الشیعة ،ج11، ص533.

(104) ـ بحار الأنوار الجامعة لدرر أخبار الأئمة الأطهار، ج‏62، باب1، الکلاب و أنواعها و صفاتها و أحکامها و السنانیر و الخنازیر فی بدء خلقها و أحکامها ... ص 48.

(105) - برای تفصیل بیشتر به وسیلة النجاة و عروة الوثقی مراجعه نمائید.( مجمع المسائل، حضرت آیة الله العظمى حاج سید محمد رضا گلپایگانى، ج1، ص34 ).

(106) - علاوه بر این اگر آب را به خود می گیرد و قابل فشرده است باید بعد از هر بار شستن آن را بفشاریم تا آبهای داخلش بیرون بیاید و یا به گونه ای دیگر آب را بگیریم. (رساله توضیح المسائل امام (ره)، مساله 150، 155، 159، 160، 161و 162).

(107) ـ روزنه ای به سوی اسرار الهی، رحیم توکل، ص25.

(108) ـ میراث حدیث شیعه، مهدی مهریزی و علی صدرائی خوئی ، ج 2، ص35 .

(109)ـ من لا یحضره الفقیه، ج‏1،246، باب المواضع التی تجوز الصلاة فیها و المواضع التی لا تجوز فیها، ص240.

 

 

No comments:

Post a Comment