رجعت کے واقعات اور شہدائے کربلا کی رجعت

علي بن مہزيار امام زمانہ (عج) سے بعض جملے نقل کئے ہيں اور پھر ان سے پوچھتے ہيں:

"اے ميرے سيد و سرور اس کے بعد کيا ہوگا؟ اور امام زمانہ (عج) نے فرمايا: رجعت رجعت --- (1) اور پھر اس آيت کريمہ کي تلاوت فرمائي

:

{ثُمَّ رَدَدْنَا لَكُمُ الْكَرَّةَ عَلَيْهِمْ وَأَمْدَدْنَاكُم بِأَمْوَالٍ وَبَنِينَ وَجَعَلْنَاكُمْ أَكْثَرَ نَفِيراً}"- (2)

پھر ہم تمہيں ان کے لوٹا کر ان پر غلبہ ديں گے اور تمہيں مال و اولاد کے ساتھ تقويت پہنچائيں گے اور تمہيں تعداد ميں بڑي اکثريت ديں گے-

حکمت الہي کا تقاضا تھا کہ مستقبل ميں لوگوں اور دنيا کے انجام ميں مۆثر واقعات کا وقت معين نہ ہو جن ميں ظہور مہدي (عج) اور روز قيامت شامل ہيں- رجعت بھي ايسے ہي واقعات ميں سے ہے جس کا سال و ماہ متعين نہيں کيا جاسکتا-

اميرالمۆمنين (ع) نقل کرتے ہيں کہ جب رسول اللہ (ص) نے لوگوں کو رجعت کے واقعات سے آگاہ کيا تو انھوں نے پوچھا: رجعت کب ہوگي؟ تو خداوند متعال نے اپنے حبيب (ص) کو وحي بھيجي کہ "کہئے کہ ميں نہيں جانتا کہ کيا جو وعدہ ديا گيا ہے، قريب ہے يا خداوند متعال نے اس کے لئے لمبي مدت مقرر فرمائي ہے"- (3) 

شہدائے کربلا کي واپسي 

جيسا کہ ہم جانتے ہيں رجعت کے وقت انبياء (ع) کي ايک جماعت اور ائمہ معصومين (ع) دنيا ميں لوٹ آئيں گے؛ ان ميں سے بعض حضرت مہدي (عج) کي مدد کريں گے اور بعض بعض دوسرے روئے زمين پر طويل عرصے کے لئے صالحين کي حکومت تشکيل ديں گے-

ايک حديث ميں امام محمد باقر (ع) نے فرمايا:

ايک حديث ميں مروي ہے کہ شہدائے کربلا ـ بالخصوص سيدالشہداء (ع) ـ دنيا ميں واپس آئيں گے اور طويل عرصے تک روئے زمين پر حکومت کريں گے-

امام محمد باقر (ع) نے فرمايا:

"امام حسين (ع) نے شہادت سے قبل اپنے اصحاب سے فرمايا: خوشخبري ہو کہ اگر يزيدي ہميں قتل کريں تو ہم اپنے پيغمبر (ص) کي طرف لوٹيں گے اور پھر جب تک خدا چاہے گا ہم اپني قبروں ميں رہيں گے اور ميں سب سے پہلے رجعت کروں گا، س قيام کروں گا اميرالمۆمنين (ع) کي طرح"- (4)

امام محمد باقر (ع) نے فرمايا: "سب سے پہلے حسين بن علي (ع) رجعت فرمائيں گے اور زمين پر حکومت کريں گے يہاں تک کہ آپ کي ابروئيں بڑھاپے کي وجہ سے چہرے پر لٹک آئيں گي"- (5)

..................

1- بحارالانوار، ج 53 ص 105-

2- سوره بني اسرائيل (17) آيت 6-

3- وہي ماخذ ص 59-

4- وہي ماخذ ص 62-

5- وہي ماخذ ص 44- 

محمدرضا ضميرى

No comments:

Post a Comment