نمازِ وحشت قبر؛ ایک اجمالی جائزہ

بظاہر بنیادی مصادرِ احادیثِ شیعہ میں "نمازِ وحشتِ قبر" یا "صلاة ليلة الدفن" یا " صلاة الوحشة" یا "صلاة الهدية" نام کی کسی نماز کا تذکرہ نہیں ہے۔

سب سے پہلے اس حوالے سے ایک روایت، نویں صدی ہجری کے عالم، جمال السالکین، ابو العباس، احمد بن محمد بن فہد حلی اسدی (متوفیٰ ۸۴۱ھ) نے اپنی کتاب "الموجز الھادی" میں اس بابت یوں نقل کی ہے جو مرسلہ؛ غیر معتبر ہے

عن النبي (ص) أنه قال: (لا يأتي على الميت أشد من أول ليلة فارحموا موتاكم بالصدقة، فإن لم تجدوا فليصل أحدكم ركعتين له يقرأ في الأولى بعد الحمد آية الكرسي وفي الثانية بعد الحمد سورة القدر عشر مرات، فيقول بعد السلام: اللهم صل على محمد وآل محمد وابعث ثوابها إلى قبر فلان)

اس روایت کو تقی الدین، ابراہیم بن علی الکفعمی (متوفیٰ ۹۰۵ھ) نے اپنی دعاوں کی کتاب «جُنة الأمان الواقیة و جَنة الإیمان الباقیة»، معروف به مصباح الکفعمی میں نقل کر کے اس نماز کی کیفیت یُوں بیان کی ہے

صلاة هدية المیت ليلة الدفن ركعتان، في الأولى الحمد وآية الكرسي، وفي الثانية الحمد والقدر عشرا، فإذا سلم قال: اللهم صل على محمد وآل محمد، وابعث ثوابها إلى قبر فلان.

مصباح الکفعمی سے اس نماز کی کیفیت کی روایت کو شیخ حر العاملی نے "وسائل الشیعہ" کی جلد۸ میں نقل کیا ہے، دیکھیے حدیث رقم ۱۰۳۲۸۔

یُوں بظاہر اس نماز کی روایت غیر معتبر، مرسلہ ہے۔

قاعدہ تسامح در ادلہ سنن کے تحت اسے مستحب قرار دیا جا سکتا ہے؛ ورنہ اِسے رجاء کی نیت سے ادا کرنا ہوگا۔ اس بابت بعض دیگر اسی نوعیت کی مرسلہ، غیر معتبر روایات سے پتہ چلتا ہے کہ میت کو دو رکعت نماز ہدیہ کی جانا چاہیے؛ یوں خاص کیفیت بھی مذکور نہ ہے؛ تاہم ایسی روایات کا اعتبار بھی قاعدہ تسامح کی رُو سے کیا جا سکتا ہے ورنہ نہیں۔

ہماری دانست میں یہ نماز، بسندِ معتبر معصومین سے ثابت نہیں، نہ اس کی کیفیت ثابت ہے۔ اس کا ذکر بنیادی مصادرِ احادیثِ شیعہ یا فقہی ذخیرہ میں نہ ہے۔

امجد عباس

اسلام آباد

No comments:

Post a Comment