حبیب اور مسلم بن عوسجہ ان لوگوں میں سے تھے جو مسلم بن عقیل علیہ السلام کے لئے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے اور پورے عشق و شیدائی کے ساتھ ان کی پشت پناہی کررہے تھے۔
اہل بیت(ع) نیوز ایجنسی۔ابنا۔ حبیب بن مُظاہر امیرالمؤمنین علی اور امام حسین علیہما السلام کے اصحاب اور شہدائے کربلا میں سے ہیں، قبیلہ بنی اسد سے ہیں چنانچہ اسدی کہلاتے ہیں۔
والد کا نام اور حبیب کا لقب
متقدم مآخذ میں حبیب کے والد کا نام مُظاہر (1) نیز مُظَہَّر (2) اور بعض مآخذ میں مُطَہَّر (3) کی صورت میں منقول ہے۔
عبدالکریم بن محمد سمعانی نے "الانساب" ان کے وصف کو "مُظَہَّری" کے ذیل میں (4) کے ذیل میں بیان کیا ہے مگر عبد اللہ مامقانی تنقیحالمقال فی علم الرجال، مامقانی (5) نے مختلف زبانوں اور زيارات سے استناد کرتے ہوئے "مُظاہر" کو صحیح گردانا ہے اور کہہ ہے کہ "مُظَہَّر" بھی مُظاہر ہی ہے جو رائج رسم الخط کی بنا پر الف کے بغیر لکھا گیا ہے جسے اردو میں "مُظٰہر" کی صورت میں لکھا جاسکتا ہے۔ ہشام بن محمد کلبی نے جمہرۃ النسب (6) میں ان کا پورا شجرہ نسب درج کیا ہے۔
حبیب کی شخصیت
ابن حجر عسقلانی (7) کے بقول، حبیب کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کا شرف دیدار نصیب ہؤا ہے لیکن شیخ طوسی (8) نے انہیں تابعی اور امیرالمؤمنین، امام حسن اور امام حسین علیہم السلام کے اصحاب کے زمرے میں شمار کیا ہے۔ (9)
وثاقت اور عبادت
علامہ حلی (10) نے انہیں "مشکور" کے عنوان سے ان کی مدح کی ہے جو ان کی وثاقت (ثقہ ہونے) کا ثبوت ہے۔ (11)
حبیب امیرالمؤمنین علی علیہ السلام کے ساتھ کوفہ چلے گئے اور آپ کے اصحاب خاص میں شمار ہوتے تھے اور تمام جنگوں میں آپ کے ساتھ رہے۔ (12)
امیرالمؤمنین کے ہمراہ
حبیب نے امیرالمؤمنین علیہ السلام کی تمام جنگوں میں شرکت کی (13) اور امیرالمؤمنین علیہ السلام کی پولیس "شرطۃ الخمیس" کے رکن تھے۔ (14) شیخ مفید نے کتاب "الاختصاص" (15) میں حبیب بن مظاہر، میثم تمار اور رُشَید ہَجَری کو امیرالمؤمنین علیہ السلام کے برگزیدہ اصحاب کے زمرے میں شمار کیا ہے۔
حبیب امیرالمؤمنین علیہ السلام کے نزدیک خاص منزلت رکھتے تھے اور آپ کے خاص اصحاب، حواریون، خاص شاگردوں اور آپ کے علوم کے حاملین میں سے ایک تھے۔ (16)
علم بلایا و منایا سے آگہی
محمد بن عمر کشی نے اپنی کتاب "رجال کشی) (17) میں، ایک روایت نقل کی ہے جس کے سلسلۂ سند میں محمد بن عبد اللہ بن مہران کرخی (18) بھی ہیں، کہ "حبیب بن مظاہر اخبار غیب اور اپنے انجام سے باخبر تھے۔ گوکہ آیت اللہ سید ابوالقاسم خوئی نے اس روایت کو ضعیف قرار دیا ہے۔ (19)
حبیب شہر کوفہ میں میثم سے کہتے ہیں: "گویا ایک مرد کو دیکھ رہا ہوں جو الزرق کے بازار میں خوبوزے فروخت کررہا ہے ۔۔۔ اور اہل بیت علیہم السلام کی محبت میں سولی پر لٹکایا گیا ہے اور [دشمن] ان سولی پر ہی اس کا پیٹ پھاڑ دیتے ہیں"؛ اور میثم بھی حبیب کو ان کی شہادت کی کیفیت سے آگاہ کرتے ہیں اور کہتے ہیں: "گویا ایک سرخ چہرے والے مرد کو دیکھ رہا ہو جس کے کندھوں پر بال لٹکے ہوئے ہیں اور فرزندِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی راہ میں جام شہادت نوش کرتا ہے؛ اس کا سر تن سے جدا کیا جاتا ہے اور کوفہ میں پھرایا جاتا ہے"۔ بعدازاں یہ دونوں بزرگوار ایک دوسرے سے وداع کرتے ہیں۔ اسی اثناء میں رُشَید ہَجَری آپہنچے اور جب ان کے مکالمے سے آگاہ ہوئے تو کہنے لگے: "خدا بخشے میثم کو، جو بھول گئے کہ یزیدی حکمران ان کے سر کے لئے دوسروں سے 100 درہم زیادہ انعام متعین کریں گے"۔
فضیل بن بن زبیر اور کچھ دوسرے افراد، جنہوں نے یہ مکالمہ سن لیا تھا، کہتے ہیں کہ کچھ ہی عرصہ گذرا تھا کہ ان تینوں کی پیشن گوئیاں سچ ثابت ہوئیں: میثم تمام عمرو بن حریث کے گھر کے دروازے کے باہر ایک درخت کے تنے پر لٹکا دیئے گئے، حبیب کربلا میں شہید ہوئے اور ان کا سر جدا کیا گیا اور کوفہ لایا گیا"۔ (20)
حبیب راویِ حدیث
حبیب حدیث کے راویوں میں سے ہیں۔ مروی ہے کہ حبیب نے امام حسین علیہ السلام سے پوچھا: "آپ آدم علیہ السلام کی خلقت سے پہلے کس صورت میں تھے؟ فرمایا: ہم نور کے اشباح کی صورت میں عرش اللہ کے طواف میں مصروف تھے اور فرشتوں کو تسبیح و تحمید اور تہلیل سکھاتے تھے"۔ (21)
شیعہ فقہی کتب میں حماد بن عثمان نے حبیب بن مظاہر سے اور انھوں نے ابو عبد اللہ علیہ السلام سے طواف حج کے بارے میں ایک حدیث نقل کی ہے؛ (22) لیکن قوی احتمال یہ ہے کہ یہ حبیب، حبیب بن مظاہر اسدی نہیں ہیں۔ (23) لیکن شیخ حُرّ عاملی نے لکھا ہے کہ ابو عبد اللہ امام حسین علیہ السلام ہیں اور اور حبیب بن مظاہر کربلا میں آپ کے شہید صحابی حبیب بن مظاہر اسدی ہیں۔ (24)
معاویہ کے بعد حبیب کے اقدامات
حبیب نے معاویہ کی موت کے بعد کچھ اقدامات انجام دیئے ہیں جنہیں یا نقل کیا جارہا ہے:
امام حسین علیہ السلام کو خط لکھنا
سنہ 60ھ میں معاویہ کی موت کے بعد حبیب اور شیعیان کوفہ کے بعض دوسرے زعماء بشمول سلمان بن صُرَد خزاعی، مُسَیِّب بن نَجَبَہ اور رفاعۃ بن شداد بَجَلی، نے یزید کی بیعت سے انکار کیا اور امام حسین علیہ السلام کو خط لکھا اور آپ کو امویوں کے خلاف قیام کے لئے کوفہ آنے کی دعوت دی۔ (25)
حبیب، مسلم بن عقیل کے حامی
امام حسین علیہ السلام کے کوفیوں کے خطوط موصول ہونے کے بعد آپ نے اپنے چچا زاد بھائی اور نائب خاص کو مسلم بن عقیل علیہ السلام کو کوفہ روانہ کیا؛ اور ان کے آنے کے بعد شیعیان کوفہ ان کے گرد اکٹھے ہوئے۔
عابس بن ابن شبیب پہلے شخص تھے جنہوں نے اٹھ کر وفاداری کا اعلان کیا اور ان کے بعد حبیب اٹھے اور عابس کے کلام کی تائید کرتے ہوئے کہا: "اللہ کی رحمت ہو تم پر اے ابن ابی شبیب، تم نے اپنے دل کی بات مختصر ترین الفاظ میں بیان کردی"۔ اور پھر کہا: "خداوند یکتا کی قسم! میں بھی اسی رائے اور اسی عقیدے پر ہوں جس کا اظہار عابس نے کیا"۔ (26)
حبیب اور مسلم بن عوسجہ ان لوگوں میں سے تھے جو مسلم بن عقیل علیہ السلام کے لئے لوگوں سے بیعت لے رہے تھے اور پورے عشق و شیدائی کے ساتھ ان کی پشت پناہی کررہے تھے۔ (27)
محمد سماوی اپنی کتاب میں اِبصارالعین فی انصارالحسین (28) کے مطابق حبیب بن مظاہر اور مسلم بن عوسجہ کوفہ میں امام حسین علیہ السلام کے لئے لوگوں سے بیعت لیتے تھے یہاں تک کہ عبیداللہ بن زیادہ کوفہ آ گیا اور کوفیوں نے مسلم بن عقیل علیہ السلام کی مدد سے ہاتھ کھینچ لیا اور ان کو تنہا چھوڑ دیا۔ حبیب اور مسلم کو اپنے قبائل نے چھپایا اور وہ دونوں بعد ازاں خفیہ طور پر کربلا جاکر امام حسین علیہ السلام سے جا ملے۔
امام علیہ السلام کا حبیب سے مدد مانگنا
کوفیوں کی بےوفائی اور مسلم بن عقیل علیہ السلام کی شہادت کے بعد، حبیب اور مسلم کو اپنے قبیلوں نے چھپایا۔ ایک روایت کے مطابق جب امام حسین علیہ السلام کو حضرت مسلم کی شہادت کی خبر ملی، تو آپ - جو کوفہ کی طرف محو سفر تھے، - نے ایک خط حبیب کے نام لکھا اور انہیں مدد کے لئے بلایا۔ (29) لیکن یہ روایت معتبر مآخذ میں نقل نہیں ہوئی ہے۔
حبیب کا امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہونا
حبیب کو معلوم ہؤا کہ امام حسین علیہ السلام کربلا میں پڑاؤ ڈال چکے ہیں، رات کے وقت خفیہ طور پر مسلم بن عوسجہ کے ہمراہ، کربلا روانہ ہوئے۔ وہ دنوں کو کہیں چھپ جاتے تھے اور راتوں کو سفر کرتے تھے۔ اور بالآخر کربلا پہنچ کر امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ (30)
دشمن کا امان نامہ مستر کرنا
حبیب اور امام حسین علیہ السلام کے دوسرے اصحاب نے دشمن کے امان ناموں کو مسترد کیا اور ان کا استدلال یہ تھا کہ اگر امام حسین علیہ السلام شہید ہوجائیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے حضور ان کے پاس کوئی حجت نہ ہوگی۔ (31)
حبیب کا بنی اسد سے مدد مانگنا
عمر بن سعد کے لشکر میں مسلسل میں اضافہ ہوتا گیا تو حبیب امام حسین علیہ السلام سے اجازت لے کر قبیل بنی اسد کی طرف چلے گئے اور ایک مفصل خطبہ دے کر ان سے مدد مانگی۔
انھوں نے اپنے خطاب کا کچھ یوں آغاز کیا: "میں تمہارے لئے بہترین تحفہ لے کر آیا ہوں اور تم سے درخواست کرتا ہوں کہ فرزند رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی مدد کے لئے چلے آؤ؛ کیونکہ آپ اپنے بہادر اصحاب کی ایک جماعت کے ہمراہ - جن میں سے ہر فرد ایک ہزار افراد کے برابر ہے اور آپ کے فرمان سے سرتابی نہیں کرتے اور اپنے پورے وجود کے ساتھ آپ کا دفاع کرتے ہیں تاکہ آپ کو دشمنوں کی طرف سے کسی قسم کی گزند نہ پہنچے - کربلا کی سرزمین پر موجود ہیں جنہیں عمر بن سعد کی سرکردگی میں 22 ہزار یزیدیوں پر مشتمل لشکر نے گھیرے میں لے لیا ہے۔ تم میرے اقرباء اور اعزاء میں سے ہیں، میری نصیحت کی طرف توجہ کرو تاکہ دنیا اور آخرت کی شرافت حاصل کرسکو۔۔۔ خدا کی قسم! تم میں سے جو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرزند کے راستے میں بصیرت و آگہی کے ساتھ جام شہادت نوش کرے گا وہ اعلٰی عِلِیّین (یعنی جنت کے اعلیٰ درجے لوگوں کے رتبے) میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے ساتھ ہوگا"۔ (32)
جس شخص نے سب سے پہلے حبیب کی ندا پر لبیک کہا اور وفاداری کا اعلان کیا وہ "عبد اللہ بن بشر" تھے۔ عبد اللہ اور بنی اسد کے کچھ افراد حبیب کے گرد جمع ہوئے اور امام حسین علیہ السلام کی خدمت میں شرف حضور پانے کا ارادہ کیا لیکن یزیدی فوج سے ازرق بن حرب صیداوی نے 4000 افراد کا لشکر لے کر ان پر حملہ کیا اور قبیلہ بنی اسد کو منتشر کردیا۔ حبیب، امام کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ماجرا کہہ سنایا۔ (33)
تاسوعا (نویں کے دن) کو حبیب کا اقدام
تاسوعا کی شام کو امام حسین علیہ السلام نے دشمن سے ایک رات کی مہلت لے لی۔ تو حبیب نے دشمن سے مخاطب ہوکر وعظ و نصیحت پر مبنی خطاب کیا اور کہا: "خدا کی قسم! تم بہت بری قوم ہو جو کل بروز قیامت خدائے متعال کے سامنے حاضر ہوگے ایسی قوم کی حیثیت سے جس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ کے فرزند اور آپ کے اصحاب اور خاندان اور سحرخیز اور ذکر گو بندوں کو قتل کیا ہوگا"۔ (34)
حبیب نے اس خطاب کے ضمن میں امام اور آپ کے اصحاب کے اوصاف بیان کیا اور یزید کے گماشتوں کو جنگ سے پرہیز کرنے کی تلقین کی لیکن عزرہ بن قیس نے ان کے کلام کو خودستائی (اپنی تعریف آپ) پر محمول کیا۔ (35)
شب عاشورا حبیب کی خوش طبعیاں
عاشورا کی شب حبیب بن مظاہر یزید بن حُصَین کے ساتھ ہنسی مذاق کررہے تھے، تو یزید نے کہا: اے حبیب! یہ کونسا ہنسی مذاق کا وقت ہے؟ حبیب نے جواب دیا: ہنسی مذاق کا اس سے بہتر کونسا وقت ہوسکتا ہے، خدا کی قسم! چند ہی گھڑیاں بعد دشمن کے گماشتے شمشیریں لے کر ہم پر حملہ آور ہونگے اور ہم جنت الفردوس میں حور العین کی آغوش مں پہنچیں گے"۔ (36)
سیدہ زینب سلام اللہ علیہا سے وفاداری کا اظہار
ایک روایت کے مطابق شب عاشور جب حبیب بن مظاہر نے ہلال بن نافع سے سنا کہ حضرت زینب سلام اللہ علیہا فکرمند ہیں کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ اصحاب، وفادار نہ رہیں اور امام حسین علیہ السلام کو تنہا چھوڑ دیں! تو انھوں نے اصحاب کو اکٹھا کیا اور وہ سب سیدہ کے خیمے کے قریب پہنچے اور خلوص دل سے وفاداری اور اخلاص کا اظہار کیا تاکہ ثانی زہراء سلام اللہ علیہا کی تشویش دور ہوجائے۔ (37)
عاشورا میں میسرہ کے کمانڈر
صبح عاشورا جب امام حسین علیہ السلام نے اپنے لشکر کو آراستہ کیا تو زہیر بن قین کو میمنے کا سالار مقرر کیا اور حبیب بن مظاہر کو میسرہ کا سالار اور قلب لشکر کی کمان بھائی ابوالفضل کے سپرد فرمائی۔
لشکر یزید کی طرف سے زیاد بن ابیہ کا غلام "یسار" اور عبیداللہ بن زیاد بن ابیہ کا غلام "سالم" دونوں میدان میں آئے اور حریف طلب کیا۔ حبیب اور بریر ہمدانی مقابلے کے لئے اٹھے مگر امام نے انہیں اجازت نہ دی۔ بعدازاں عبیداللہ بن عمیر کلبی ان کی طرف لپکے اور اپنا تعارف کرایا لیکن انھوں نے حبیب، زہیر اور بریر کو جنگ مقابلے کے لئے طلب کیا؛ تاہم عبیداللہ بن عمیر نے کار نمایاں کرکے ان دونوں کو ہلاک کر ڈالا۔ (38)
شمر کو جواب
روز عاشور جب امام حسین علیہ السلام نے خطبے کا آغاز کیا تو شمر نے چلا کر کہا: "میں ایک حرف پر خدا کی پرستش کرتا ہوں (یعنی شک و تذبذب کے ساتھ خدا کی پرستش کرتا ہوں) اگر میں جان لوں کہ تم کیا کہہ رہے ہو"۔ (یعنی آپ کا کلام میری سمجھ سے بالاتر ہے) تو حبیب نے جواب دیا: "خدا کی قسم! کہ میں دیکھ رہا ہوں کہ تو 70 حرفوں پر خدا کی پرستش کرتے ہو اور میں گواہی دیتا ہوں کہ یہ تیری یہ بات کہ "تو امام حسین علیہ السلام کے کلام کو تم نہيں سمجھ سکتا"، بالکل صحیح ہے۔ کیونکہ تو یہ سمجھنے کا قابل نہیں ہے کہ امام کیا فرما رہے ہیں؛ اور سبب یہ ہے کہ خدائے متعال نے تیرے دل پر مُہر لگا دی ہے"۔ (39)
مسلم بن عوسجہ کے سرہانے حاضری
مسلم بن عوسجہ کی شہادت کے وقت امام حسین علیہ السلام حبیب کے ہمرا ان کے سرہانے حاضر ہوئے۔
حبیب نے کہا: "مجھ پر بہت بھاری ہے کہ آپ اس طرح زمین پر گر گئے ہیں، بشارت ہو آپ کو جنت کی"۔
مسلم نے نحیف سی آواز میں کہا: "اللہ آپ کو خیر کی بشارت دے"۔
حبیب نے کہا: "اگر مجھے معلوم نہ ہوتا کہ ایک گھڑی بعد آپ کے پاس آؤں گا تو اپنے امور کی وصیت آپ سے کرتا تا کہ اپنے دین اور قرابت کا حق ادا کروں"۔
مسلم نے امام کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: "خدا آپ پر رحمت نازل کرے، میں آپ کو اس امام کے حق میں وصیت کرتا ہوں، جب تک کہ آپ کے بدن میں جان ہے، ان کا دفاع کرو اور آخری دم تک ان کی نصرت سے دریغ مت کرنا"۔
حبیب نے کہا: "رب کعبہ کی قسم! ایسا ہی کروں گا اور جو کچھ آپ نے کہا، میں انجام دوں گا"۔ (40)
روز عاشور حبیب کی بشاشت
محمد بن عمر کشی روز عاشور، حبیب بن مظاہر کے حالات بیان کرتے ہوئے نقل کرتے ہیں کہ جس قدر کہ حبیب کی شہادت کا لمحہ قریب تر آرہا تھا، ان کا چہرہ بشاش تر ہوجاتا تھا اور اپنے دوستوں سے زیادہ ہنسی مزاح کرتے تھے، اور ان کی یہ حالت دوستوں کی حیرت کا باعث بنتی تھی۔ (41)
ظہر عاشور کی نماز
ظہر عاشورا نماز کا وقت ہؤا تو امام نے فرمایا: لشکر سے کہہ دیں کہ جنگ کو ترک کریں تاکہ مل کر نماز ادا کریں۔
لشکر یزید سے حصین بن نمیر (حصین بن تمیم) نے بآواز بلند کہا: "تمہاری نماز قبول نہيں ہوگی!"۔
حبیب نے جواب دیا: "اے گدھا! کیا تو سمجھا ہے کہ آل رسول صلی اللہ علیہ و آلہ کی نماز قبول نہیں ہوگی اور تیری نماز قبول ہوگی؟ (42) چنانچہ حصین نے حبیب پر حملہ کیا اور حبیب نے اس کے گھوڑے پر وار کیا، گھوڑے نے بدک کر اسے زمین پر پٹخ دیا لیکن اس کے ساتھیوں نے اسے بچا دیا؛ اور اب حبیب میدان میں آئے اور یزیدی اشقیاء کی ایک جماعت کو ہلاک کر دیا۔ (43)
حبیب کی رَجَزخوانی
حبیب بن مظاہر اسدی نے میدان کربلا میں کئی رجزیہ اشعار پڑھے ہیں:
پہلا رجز
حبیب نے میدان میں اتر کر یہ رجز پڑھا:
اُقْسِمُ لَوْ كُنَّا لَکُمْ أَعْداداً • أَوْ شَطْرَكُمْ وَلَيْتُمْ الأَ كْتاداً
یا شَرِّ قَوْمٍ حَسَباً وَآداً • وَشَرَّهُمْ قَدْعُلِمُوا أَنْداداً
وَیا أَشَدَّ مَعْشَرٍ عِناداً (44)
خدا کی قسم! اگر ہماری تعداد تمہاری جتنی یا تمہارے نصف جتنی ہوتی، تو تم گروہ در گروہ راہ فرار اختیار کرتے اے حسب و نسب اور جڑوں اور طاقت کے لحاظ سے بدترین لوگو! جان لیا گیا کہ تم پستی اور رذالت کے لحاظ سے ایک جیسے ہو۔
اور اے وہ گروہ، جو عناد اور سرکشی و کج روی کے لحاظ شدیدترین ہے۔
دوسرا رجز
مندرجہ ذیل کا رجز بھی حبیب بن مظاہر سے منسوب ہے:
أَنَا حَبيبٌ وَأبي مُظَّهَرْ • فارِسُ هَيجاءٍ وَلَيثُ قَسْوَرْ
وَفي يميني صارِمٌ مُذَکَّرْ • وَفيكُمُ نارُ الجَحيمِ تُسْعَر
أَنْتُمُ أَعَدُّ عُدُّةً وَأَكْثَرْ • وَنَحْنُ في كُلِّ الأُمورِ أَجْدَر
وَأَنتُمُ عِنْدَ الوَفاءِ أَغْدَر • لَنَحْنُ أَزْكى مِنْكُمُ وَأَطْهَرْ
وَنَحْنُ أَوْفى مِنْکُمُ وَأَصْبَرْ • وَنَحْنُ أَعْلى حُجَّةً وَأَظْهَرْ
حَقّاً وَأَتْقى مِنْكُمُ وَأعْذَرْ • المَوْتُ عِنْدي عَسَلُ وَسُكَّرْ
مِنَ البَقاءِ بَينَكُم يا خُسَّر • أَضْرِبُكُم وَلا أَخافُ المَحْذَرْ
عَنِ الحُسَينِ ذِي الفِخارِ الأَطْهَرْ • أنْصُرُ خَيرِ الناسِ حينَ يذْكَرْ؛ (45)
میں حبیب ہوں، میرا والد مظاہر ہے
بھڑکتی شعلہ ور رزمگاہ کا شہسوار ہوں
ہاتھ میں میرے عمدہ کاٹ کی تلوار ہے
جو تمہارے درمیان دوزخ کی آگ بھڑکاتی ہے
تم گنتی میں زیادہ اور ہتھیاروں سے لیس ہو
جبکہ ہم تمام معاملات میں زیادہ لائق ہیں
تم وفاء کے لحاظ سے عہدشکن اور بہت زیادہ غدار ہو
اور ہم پاک تر اور پاک سرشت تر ہیں
اور ہم تم سے زیادہ وفادار اور زیادہ صبر کرنے والے ہیں
اور ہم حجت و استدلال کے لحاظ سے برتر اور پاک تر ہیں
حق یہ ہے کہ ہم تم سے زیادہ پرہیزگار اور زیادہ صاحب برہان ہیں
موت میرے نزدیک شہد اور شَکَر ہے
تمہارے درمیان بقاء اور رکنے کی نسبت، اے گھاٹے میں گھرنے والو
تمہیں مارتا ہوں اور کسی خبردار کرنے والے سے نہیں ڈرتا
حسین کی طرف سے، جو پاک ترین، سربلند اور فخر و شرف کے مالک ہیں
یاور و ناصر ہوں لوگوں ميں سے بہترین اور برترین [امام] کا، جس کو [بہترین کے طور پر] یاد کیا جاتا ہے
حبیب کی شہادت
حبیب نے میدان میں کارہائے نمایاں انجام دیئے، شدید جنگ لڑی اور ابن شہر آشوب کے مطابق 62 یزیدیوں کو ہلاک کر ڈالا۔ شدید جنگ کے بعد ایک تمیمی شقی "بدیل بن صریم عقفانی تمیمی" نے ان پر حملہ کیا اور ان کے سر پر تلوار کا وار کیا لیکن حبیب نے اسے پکڑا اور زمین پر گرا کر ہلاک کردیا۔ بنی تمیم کے ایک شقی نے نیزے کا وار کیا جس کے نتیجے میں حبیب زمین پر گرا اور جب اٹھنا چاہا، تو اسی لمحے اشقیاء میں سے حصین بن نمیر نے تلوار کا وار کیا اور حبیب نقش زمین ہوئے اور پھر وہ لعین گھوڑے سے اترا اور حبیب کا سر مبارک بدن سے جدا کیا۔ (46) دوسری روایت کے مطابق، بدیل بن صریم نے ہی حبیب پر حملہ کیا اور آپ کی جبین پر تلوار ماری، اور دوسرے شخص نے نیزہ مارا، اور حبیب گھوڑے کی زین سے زمین پر آ رہے، ان کے محاسن خون میں خضاب ہوئے۔ بعدازاں شقی بدیل بن صریم نے آپ کا سر بدن سے جدا کیا۔ (47)
حصین بن نمیر اور ایک بدیل بن صریم کے درمیان تنازعہ اٹھا اور ہر کوئی دعوی کررہا تھا کہ حبیب کا قاتل وہ ہے۔ حصین نے بدیل سے کہا: میں ان کے قتل میں تمہارے ساتھ شریک ہوں۔ بدیل نے کہا: خدا کی قسم! میرے سوا کسی نے بھی انہیں نہیں مارا۔ حصین نے کہا کہ ان کا سر میرے حوالے کرو تاکہ میں اسے گھوڑے کی گردن میں لٹکا دوں اور لوگ مجھے اس کے ساتھ دیکھ لیں اور جان لیں کہ میں ان کے قتل میں تمہارے سے شریک ہوں، اور پھر سر کو لے کر عبیداللہ بن زیاد کے پاس جاؤ کیونکہ مجھے اس انعام کی ضرورت نہیں ہے جو تمہیں دیا جائے گا۔ بدیل نہ مانا لیکن قبیلے کے کچھ افراد نے وساطت کی اور اس نے حبیب کا سر مبارک حصین بن نمیر کے سپرد کیا، جسے اس نے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا اور یزیدی لشکر میں پھرایا اور بدیل کو واپس کردیا۔ (48) بعدازاں بدیل ملعون نے حبیب کا سر اپنے گھوڑے کی گردن میں لٹکایا اور کوفہ جاکر اسے یزیدی گورنر عبیداللہ بن زیاد کے سامنے پیش کیا۔ (49)
حبیب کے قاتل کا انجام
ابن سعد کی سرکردگی میں یزیدی لشکر کربلا سے کوفہ لوٹ کر آیا تو بدیل بن صریم تمیمی نے حبیب کے سر مبارک کو گھوڑے کے سینے پر لٹکایا تھا اور دارالامارہ میں ابن زیاد کی طرف جارہا تھا؛ اس اثناء میں حبیب کے فرزند قاسم بن حبیب کی نظر والد ماجد کے سر مبارک پر پڑی۔ قاسم ابھی لڑکپن کی عمر سے گذر رہے تھے۔ قاسم اس بدیل کے گھوڑے کے ساتھ ساتھ چل رہے تھے اور اس سے الگ نہیں ہورہے تھے۔ جب وہ شخص حکومتی محل میں داخل ہوتا تھا قاسم بھی ساتھ داخل ہوجاتے تھے اور جب نکلتا تھا قاسم بھی اس کے ساتھ باہر نکلتے تھے۔ بدیل قاسم پر بدگمان ہؤا اور پوچھا: بیٹا تم میرا پیچھا کیوں کررہے ہو؟ قاسم نے کہا: کوئی خاص بات نہیں ہے۔ کہنے لگا: کوئی بات تو ہے، مجھے بتا دو۔ قاسم نے کہا: یہ سر جو تیرے پاس ہے یہ میرے والد کا ہے، کیا تو اسے میرے حوالے نہیں کرے گا کہ میں اسے دفن کروں؟ کہنے لگا: بیٹا! امیر ابن زیادہ قبول نہیں کرے گا کہ اس سر کو دفنا دیا جائے اور میں اس شخص کے قتل کے عوض امیر سے اچھا خاصا انعام وصول کرنا چاہتا ہوں۔ قاسم نے کہا: اللہ تجھے اس کام پر کوئی اجر و پاداش عطا نہ فرمائے سوائے عذاب شدید کے، خدا کی قسم! تو نے اپنے سے بہتر انسان کو قتل کیا ہے، یہ کہہ کر قاسم روئے۔
قاسم اپنے والد کے قاتل کی تاک میں تھے اور اسے اچانک دبوچ کر والد کے قتل کا بدلہ لینا چاہتے تھے؛ یہاں تک کہ مصعب بن زبیر کا دور آیا اور مصعب باجُمَیرا کے مقام پر - جو کہ عراق کے علاقے تکریت کے قریب واقع ہے (50) - بنی امیہ کے خلاف جنگ میں مصروف تھا؛ قاسم مصعب کے لشکر سے جا ملے اور اموی لشکر کی خیمہ گاہ پہنچ کر بدیل کو اس کے خیمے میں دیکھ لیا۔ اب قاسم موقع کی تلاش میں تھے اور ظہر کے وقت اسے خیمے میں سویا ہؤا پایا اور تلوار کے ایک وار سے اس کا کام تمام کیا۔ (51) اور اموی اشقیاء نے انہیں شہید کردیا۔
امام حسین علیہ السلام حبیب شہید کے سرہانے
راتوں کے "زاہد" اور دنوں کے "شیر" حبیب بن مظاہر نے جام شہادت نوش کیا تو امام حسین علیہ السلام ان کے سرہانے حاضر ہوئے؛ اور انہیں دعا دی اور فرمایا: اے حبیب! تم ایک صاحب فضیلت انسان تھے اور ہر شب ایک قرآن پاک ختم کر لیا کرتے تھے۔ (52)
مروی ہے کہ "لَمَّا قُتِلَ حَبِيبُ بْنُ مَظَاهِرٍ، هَدَّ ذَلِكَ حُسَيْنًا وَقَالَ عِنْدَ ذَلِكَ: [عِندَ اللهِ] أحْتَسِبُ نَفْسِى وَحُمَاةَ أصْحَابِي؛ جب حبیب شہید ہوئے تو ان کی شہادت نے امام حسین علیہ السلام کو توڑ کر رکھ دیا (اور ان کا قتل آپ پر بہت گراں گذرا)؛ اور فرمایا: "میں اپنا اور اپنے حامی اصحاب کا حساب اللہ کے کے سپرد کرتا ہوں"۔ (53)
حبیب بن مظاہر کی تدفین
جنگ ختم ہوئی تو بنی اسد نے سیدالشہداء امام حسین علیہ السلام کے اصحاب کی میتوں - بشمول حبیب بن مظاہر کو اجتماعی مقبرے میں دفن کردیا۔ (54) بروایت دیگر، قبیلہ بنی اسد نے شہدائے کربلا کی تدفین کے وقت حبیب بن مظاہر کو - جو ان کے زعیم اور ہردلعزیز اور صاحب عظمت و شرف تھے - امام حسین علیہ السلام کے مرقد منور سے 10 گز کے فاصلے پر جنوبی برآمدے میں دفنا دیا۔ (55)
حبیب کا نام زیارت ناموں میں
حبیب بن مظاہر کا نام امام مہدی علیہ السلام سے منسوب "زیارت ناحیہ" میں بھی اور ماہ رجب المرجب کی مخصوص "زیارت امام حسین علیہ السلام" میں مذکور ہے۔ (56)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حوالہ جات:
1۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج4، ص261 و ص264 و ص327 و ص331 و ص335-336؛ ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج4، ص20۔
2۔ حسن بن یوسف علامہ حلی، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، ص61؛ بلاذری، احمدبن یحیی، أنساب الاشراف، ج3، ص157؛ ج2، ص478 و ص480؛ دینوری، احمد بن داؤد، الاخبار الطِّوال، ص256؛ شیخ صدوق، محمد بن علی، الأمالی، ص224۔
3۔ ابنکثیر، اسماعیل بن عمر، البدایۃ والنہایۃ، ج8، ص180؛ قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، ص124؛ کوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص28 و ص34 و ص87؛ ابن اثیر، علی بن محمد، الکامل فی التاریخ، ج4، ص59 و ص62 و ص65 و 68 و 70۔
4۔ سمعانی، عبدالکریم بن محمد، الأنساب، ج5، ص331۔
5۔ مامقانی، عبد اللہ، تنقیح المقال فی علم الرجال، ج17، ص394-395 و ص396۔
6۔ ابنکلبی، ہشام بن محمد، جمہرۃ النسب، ج1، ص170۔
7۔ ابنحجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییز الصحابۃ، ج2، ص142۔
8۔ طوسی، محمد بن حسن بن علی، رجال طوسی، ص60 و ص93، و ص100۔
9۔ ابنحجر عسقلانی، الاصابۃ فی تمییزالصحابۃ، ج2، ص142؛ امین، محسن، اعیان الشیعۃ، ج4، ص554؛ حلی، حسن بن علی بن داؤد، رجال ابن داؤد، ص70۔
10۔ علامہ حلی، حسن بن یوسف، خلاصۃ الاقوال فی معرفۃ الرجال، ص132۔
11۔ مامقانی، عبد اللہ، مقباس الہدایۃ فی علم الدرایۃ، ج2، ص246۔
12۔ سماوی، محمد، اِبصارالعین فی انصارالحسین، ص101۔
13۔ طوسی، محمد بن حسن بن علی، رجال طوسی، ص67؛ سماوی، محمد، اِبصارالعین فی انصارالحسین، ص101۔
14۔ طوسی، محمد بن حسن بن علی، رجال طوسی، ص60۔
15۔ شیخ مفید، محمد بن محمد، الاختصاص، ص3۔
16۔ برقی، احمد بن ابی عبد اللہ، رجال برقى، ص4۔
17۔ کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، تلخیص محمدبن حسن طوسی، ص292۔
18۔ نجاشی، احمد بن علی، رجال نجاشی، ص350۔
19۔ خوئی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرجال، ج5، ص201-202۔
20۔ قمی، شیخ عباس، سفینۃ البحار، ج2، ص26۔
21۔ شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، علل الشرائع، ج1، ص23؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج57، ص311۔
22۔ شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص395؛ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج13، ص379۔
23۔ مامقانی، عبد اللہ، تنقیحالمقال فی علم الرجال، ج17، ص396ـ397؛ شیخ صدوق، محمد بن علی بن بابویہ، من لایحضرہ الفقیہ، ج2، ص395، پانویس1؛ شوشتری، الخصائص الحسینیۃ، ج3، ص100؛ خوئی، ابوالقاسم، معجم رجال الحدیث و تفصیل طبقات الرجال، ج5، ص203۔
24۔ حر عاملی، محمد بن حسن، وسائل الشیعۃ، ج13، ص379، پانویس1؛
25۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج4، ص261؛ بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، ج2، ص462؛ کوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص28؛ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج2، ص37۔
26۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری ج4، ص264۔
27۔ سماوی، محمد، اِبصارالعین فی انصارالحسین، ص102؛ کوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص34۔
28۔ سماوی، محمد، اِبصارالعین فی انصارالحسین، ص102۔
29۔ فاضل دربندی، شیخ آقا بن عابد بن رمضان معروف بہ ملا آقا، اسرار الشہادۃ، ص396۔
30۔ سماوی، محمد، اِبصارالعین فی انصارالحسین، ص102؛ امین، محسن، اعیان الشیعۃ، ج4، ص554۔
31۔ کشی، محمد بن عمر، اختیار معرفۃ الرجال، تلخیص محمدبن حسن طوسی، ص293۔
32۔ کوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص90۔
33۔ کوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص90 و ص90-91؛ بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، ج2، ص480؛ خوارزمی، موفقبن احمد اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ج1، ص345-346۔
34۔ بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، ج3، ص184؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج4، ص316۔
35۔ بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، ج2، ص484؛ کوفی، ابن اعثم، الفتوح، ج5، ص98؛ خوارزمی، موفق بن احمد اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ج1، ص353؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج4، ص316۔
36۔ کشی، محمد بن عمر، رجال کشی، ص293۔
37۔ دہ دشتی بہبہانی، محمد باقر، الدمعۃ الساكبۃ، ج4، ص274؛ موسوعۃ کلمات الامام الحسین، ص407408؛ حائری مازندرانی، مہدی، معالی السِّبطین فی احوال الحسن و الحسین، ص319ـ320۔
38۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری ج4، ص326؛ بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، ج2، ص487؛ دینوری، احمد بن داؤد، الاخبار الطِّوال، ص256؛ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج2، ص95۔
39۔ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج2، ص98؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری ج4، ص323؛ خوارزمی، موفق بن احمد اخطب خوارزم، مقتل الحسین، ج1، ص358۔
40۔ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج2، ص103؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج4، ص331 و ج5، ص435ـ436
41۔ کشی، محمد بن عمر، رجال کشى، ص293۔
42۔ قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، ص244؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری ج4، ص334۔
43۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابیطالب، ج3، ص252؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج45، ص26۔
44۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری ج4، ص335-334؛ المحمودي، الشيخ محمد باقر، عبرات المصطفين في مقتل الحسين عليہ السلام، ج2، ص40۔
45۔ کرباسی، محمدصادق، دائرۃ المعارف الحسينيّۃ، ج5، ص166؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری ج4، ص335۔
46۔ ابن شہر آشوب، مناقب آل ابی طالب، ج3، ص252۔
47۔ شیخ عباس قمی، نفس المہموم، ص124۔
48۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج5، ص439-440۔
49۔ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری ج4، ص335؛ بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، ج2، ص494؛ خوارزمی، موفق بن احمد اخطب خوارزم، مقتل الحسین للخوارزمی، ج2، ص22۔
50۔ حموی، یاقوت بن عبد اللہ، معجم البلدان، ج1، ص314۔
51۔ بلاذری، احمد بن یحیی، أنساب الأشراف، ج3، ص402-403؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ الامم و الملوک، ج5، ص439-440۔ پاکستانی بلوچ، جو اپنے آپ کو عربی سمجھتے ہیں، قاسم بن حبیب کے اس قصے کو فخر کے ساتھ نقل کرتے ہیں؛ اور اسے بلوچی انتقام کی تاریخی علامت سمجھتے ہیں۔ مترجم
52۔ قمی، شیخ عباس، نفس المہموم، 1376ق، ص124
53۔ قندوزی، سلیمان بن ابراہیم، ینابیع المودۃ، ج3، ص71؛ ابی مخنف، وقعۃ الطف، ص265۔؛ طبری، محمد بن جریر، تاریخ طبری، ج5، ص440؛ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج2، ص114۔
54۔ مفید، محمد بن محمد، الارشاد، ج2، ص126۔
55۔ قائدان، اصغر، عتبات عالیات عراق، ص122 بحوالہ: سیف الدولہ، سلطان محمد میرزا، سفرنامہ سیف الدولہ، ص231- 230۔
56۔ ابن مشہدی، محمد بن جعفر، المزارالکبیر، ص493؛ ابنطاؤس، اقبال الاعمال، ج3، ص78 و ص344؛ مجلسی، محمد باقر، بحار الانوار، ج45، ص71۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ترجمہ: فرحت حسین مہدوی
No comments:
Post a Comment